امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان منگل کو اہم فون پر بات چیت ہوئی جس میں امریکی انتظامیہ نے یوکرین میں 30 روزہ جنگ بندی پر زور دینے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: روس یوکرین جنگ بندی کے لیے برطانیہ اور فرانس کی تجویز کیا ہے؟
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی سربراہی میں سعودی عرب میں مذاکرات کے دوران یوکرین کے حکام نے ابتدائی طور پر اس تجویز کو قبول کیا تھا اور اسے جنگ کے خاتمے کی جانب ممکنہ پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔
تاہم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے پیوٹن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امن کے لیے محض زبانی خدمت کر رہے ہیں جبکہ روسی افواج یوکرین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بات چیت سے قبل امید کا اظہار کرتے ہوئے تنازعے کو فوری طور پر حل کرنے کے ٹرمپ کے عزم پر زور دیا۔
مزید پڑھیے: روس یوکرین جنگ بندی مذاکرات: ولادیمیر زیلنسکی بدھ کو سعودی عرب پہنچیں گے
صدر ٹرمپ نے پیر کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ یہ روس اور یوکرین دونوں کے لیے ایک بری صورت حال ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچھا نہیں ہے لیکن ہم دیکھیں گے کہ امن معاہدے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم یہ کرلیں گے۔
یاد رہے کہ مذکورہ فون کال کے لیے وائٹ ہاؤس کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے گزشتہ ہفتے ماسکو میں پیوٹن سے ملاقات کی تھی اور اس فریم ورک پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
وزیر خارجہ روبیو نے اس سے قبل سعودی عرب میں یوکرین کے اعلیٰ حکام کو جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے پر قائل کیا تھا۔
ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ مذاکرات کے ایک حصے کے طور پر واشنگٹن اور ماسکو نے یوکرین اور روس کے مابین کچھ اثاثوں کی تقسیم کے بارے میں بات چیت شروع کردی ہے۔
مزید پڑھیں: یوکرین جنگ: سعودی ولی عہد اور روسی صدر کا ٹیلی فونک رابطہ
پیوٹن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اس سے قبل کہا تھا کہ رہنماؤں نے یوکرین جنگ اور امریکا اور روس کے وسیع تر تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بات چیت روس کی جانب سے کرائمیا کے الحاق کی اینیورسری کے موقع پر ہوئی۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ جس نے سنہ 2022 میں یوکرین پر حملے کی راہ ہموار کی تھی۔