امریکی تھنک ٹینک کی پاکستان انڈیا ایران پر مشتمل ایسٹ ویسٹ کاریڈور پر رپورٹ
ایسٹ ویسٹ کاریڈور سنٹرل ایشیا کے پانچ ملکوں قازقستان ، کریگیزستان ، تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان کو افغانستان ایران پاکستان اور انڈیا سے ملانے کا منصوبہ ہے ۔ اس ریجن کا لینڈ سائز 10 ملین (ایک کروڑ ) سکوئر کلومیٹر ہے ۔ یہاں 1 ارب 80 کروڑ لوگ رہتے ہیں ۔ اس ریجن میں انڈیا کا جی ڈی پی سائز 4100 ارب ڈالر ہے ۔ تاجکستان 12 ، کریگزستان 13 اور افغانستان 20 جی ڈی پی سائز کے ساتھ چھوٹے پارٹنر ہیں ۔
کاریڈور کی تعمیر سے سنٹرل ایشیا کے لینڈ لاک ملکوں کو ایران اور پاکستان کے ساحلوں تک رسائی حاصل ہو گی ۔ انڈیا کو پاکستان کے راستے ریل اور روڈ افغاستان کے علاوہ ایران اور آگے سنٹرل ایشیا سے ملا دیں گے ۔
سنٹرل ایشیا کے بے پناہ معدنی وسائل ( آئل ، گیس اور منرل ) انڈیا کی مینوفیکچرنگ اور پاکستان کے ٹریڈ نیٹورک سے جڑ جائیں گے ۔ ایران میری ٹائم گیٹ وے کا کام کرے گا ۔
رینڈ کارپوریشن 1948 میں قائم ہوا ایک نان پرافٹ گلوبل پالیسی تھنک ٹینک ہے جو سانتا مونیکا کیلیفورنیا میں بیس ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ مستقبل میں ویپن سسٹم ڈویلپ کرنے پر کام کرتا تھا ۔ بعد میں اس نے اپنا سکوپ وسیع کرتے ہوئے ایجوکیشن ، ہیلتھ کئر ، انٹرنیشنل ریلیشن اور ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا ۔ رینڈ پبلک پالیسی چیلینج فیصلہ سازی میں مدد کے لیے کام کرتا ہے ۔
رینڈ کارپوریشن نے اس پراجیکٹ پر ایک تحقیقی رپورٹ 20 فروری 2025 کو شائع کی ہے ۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے انڈیا پاکستان سے ماہرین کو شامل کیا تھا ۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کاریڈور کی تعمیر میں معاشی مشکلات زیادہ نہیں ہیں ۔ جیو پولیٹکل پریشر ، بڑی طاقتوں کے تعلقات اور محاذ آرائی ، اس کاریڈور کے ممبر ملکوں میں اعتماد کا بحران ، دہشت گردی ، سیاسی عدم استحکام اصل بڑے چیلنج ہیں ۔
دونوں ملکوں کے ماہرین نے بڑی طاقتوں کی شمولیت ، اس سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی ، سرمائے اور سپورٹ کو بھی کم اہم قرار دیا ۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان طاقتوں کو شامل کرنے سے زیادہ ان کو اثرانداز ہونے سے روکنا زیادہ اہم ہے ۔ بڑی طاقتوں سے یہاں مراد امریکہ یورپ روس اور چین ہی ہیں ۔
یہ کاریڈور اگر تعمیر ہو تا ہے تو یقینی طور پر سنٹرل ایشیا کے روس اور چین پر انحصار کو بہت کم کر دے گا ۔ پاکستان اور ایران کی معیشت کو گہرائی اور وسعت دے گا ، جبکہ انڈیا کو یورپ کی طرف آسان رسائی دینے کے علاوہ نئی مارکیٹوں اور سپلائی چین فراہم کرے گا ۔
نوٹ : ایسٹ ویسٹ کاریڈور دو ہیں ۔ گریٹر میکانگ سب ریجن ایسٹ ویسٹ کاریڈور تعمیر ہو چکا ہے ۔ یہ میانمار ، تھائی لینڈ ، لاؤس اور ویتنام کو ملاتا ہے۔ اس کاریڈور نے تھائی لینڈ اور ویتنام کا انڈسٹریل لینڈ سکیپ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔
انڈیا پاکستان کو ایران اور افغانستان کو سنٹرل ایشیا کے پانچ ملکوں سے ملانے والا ایسٹ ویسٹ کاریڈور الگ ہے ۔ اس کاریڈور بنانے کے لیے تحقیقی رپورٹ میں گائڈ لائین بھی دی گئی ہیں ۔ جن کے مطابق ممبر ملکوں کو
EWEC association (EWECA)
ان گائڈ لائین کے مطابق تمام نو ملکوں کو اک باختیار باڈی بنانی چاہئے ۔ جس میں ہر ممبر کا ایک ہی ووٹ ہو ۔ اس کا نام ایسٹ ویسٹ اکنامک کاریڈور ایسو سی ایشن ہونا چاہئے ۔ یہ ایسو سی ایشن با اختیار ہو اس کو وسیع اختیارات کے ساتھ ممبر ملکوں کے اندرونی اور بیرونی مسائل کے لیے رابطے کا کام کرنا چاہئے
۔ شارٹ ٹرم میں یہ ایسو سی ایشن اعتماد سازی ، اتفاق رائے اور فیصلہ سازی کا کا کام کرے ۔ایسوسی ایشن ایسا گورننس سٹرکچر جو اتفاق رائے قائم کرے اور بڑھائے اس پر کام کرے ۔ یہی ایسو سی ایشن بڑی طاقتوں کے ساتھ بھی روابط بڑھانے کا کام کرے ۔ ابتدائی طور پر صرف ان پراجیکٹ پر کام کرنا چاہئے جن پر اختلاف نہ ہوں ۔
اگر ایک امریکی تھنک ٹینک ایسٹ ویسٹ کاریڈور پر کام کر رہا ہے ۔ تو اس میں اشارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہمارا ریجن آئندہ کس انداز میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ دنیا ہمارے خطے کے پوٹینشل بارے حساب لگا لگا کر تھک رہی ہے ۔ خود خطے کے ممالک اک دوسرے سینگ پھنسانے میں ہی خوشی اور جوش محسوس کرتے ہیں ۔ ایسی تحقیقاتی رپورٹیں بیچاری کیا بیچتی ہیں ۔ ہماری ترقی کرنے کی نیت ہو بھی تو ہمیں شریکوں کی ٹانگ کھینچنے اور ان کے سامنے چوڑا ہو کر پھرنے میں جو سواد آتا ہے ۔ وہ سواد ترقیوں میں بھلا کہاں ملے گا ۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔