وفاق اور گزشتہ صوبائی حکومتوں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ بلوچستان میں بغاوت کی وجہ ہے، ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند

ہفتہ 12 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا ہے کہ غیر جذباتی طور پر بلوچستان میں کئی ایسے گروپس ہیں جو دھونس کے ذریعے اپنے سیاسی مطالبات منوانا چاہتے ہیں، اور یہ گروپس پہلی بار نہیں بلکہ 70 کی دہائی سے ہی فعال ہیں۔

ہمسایہ ممالک پاکستان کیخلاف فنڈنگ کرتے ہیں

وی نیوز کی ٹوئٹر اسپیس ’بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے جان اچکزئی نے کہاکہ جب بھی پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو ہمسایہ ممالک انڈیا، ایران اور افغانستان کی جانب سے ان گروپس کو فنڈنگ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دشمن ایجنسیاں ان گروپس میں شامل ہو جاتی ہیں، تو ان گروپس کا مقصد بھی بدل جاتا ہے، اب بیانیہ ان کا ہمارے سامنے جو بھی ہے، لیکن مقصد ان کا وہی ہے جو ان کے سپانسرز اور ہینڈلرز کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان گروپس کا اس وقت مقصد یہی ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم رکھا جائے۔ یہ گروپ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے۔ یہ دہشتگرد گروپ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ کو خطرناک دہشتگردی سے بچا لیا گیا، سی ٹی ڈی بلوچستان

جان اچکزئی  کے مطابق نوجوانوں میں غربت، مرکزی حکومت سے علیحدگی یا نوجوانوں اور حکومت کے درمیان  فاصلے پر مایوسی ہو سکتی ہے۔ جو کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی ہو سکتی ہے۔ جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔

گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جو لیڈر شپ رہی ہے۔ وہ 2 بڑے گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک وہ لیڈر شپ رہی ہے جو بڑے سردار ہیں، جو بلوچستان کے مفاد کے لیے کھڑے رہے ہیں۔ دوسرے خود کو پرو فیڈریشن کہتے ہیں۔ جو بڑے الیکٹبلز ہیں اور ان کے پوتے اور پڑپوتے آج بھی اسی سیاسی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ ان کے اور عام عوام کے درمیان فاصلہ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے تھا۔ یہاں گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں معیشت، گورننس اور بیوروکریسی کے مسائل موجود ہیں۔ وسائل کی تقسیم متوازی نہیں ہے۔ اور کرپشن بہت زیادہ ہے۔

 محرومیوں کی وجہ سے لوگ غلط نظریہ رکھتے ہیں

جان اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ عام آدمی یعنی مڈل کلاس افراد اور پاکستان کی حکومت کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اسکول، اسپتال اور دیگر وسائل جن کو بہت عام سمجھا جاتا ہے، وہ بلوچستان میں نہیں ہیں۔ اس طرح کی محرومیوں کی وجہ سے لوگ بہت سی چیزوں کو لے کر غلط نظریہ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل

ڈائیلاگ کی ضرورت ہے

ان گروپس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کی فنڈنگ باہر سے ہوتی ہے۔ اور ہمیں ان گروپس کو الگ کرنا ہے۔ بلوچستان کو گورننس کی نظر سے دیکھنا ہے۔ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ نئے صوبے بننے چاہیے۔ انوسٹمنٹ کے لیے ایسا ماڈل چاہیے۔ تاکہ باقی انویسٹر آسکیں۔

نوازشریف سے شکوہ

جان اچکزئی کے مطابق بلوچستان کے حالات سیاسی نہیں ہیں۔ ان سیاستدانوں کے پاس بلوچستان کا نہ ویژن ہے اور نہ ہی ان کی کپیسیٹی ہے۔ مرکز میں موجود دونوں بڑی پارٹیوں کا ذکر کیا جائے تو نواز شریف کبھی بھی کوئٹہ میں ایک دن سے زیادہ نہیں رکے۔ وہ بلوچستان کو اربوں ڈالر کے لحاظ سے دیکھتے ہیں۔ لیپ ٹاپ اسکیم پوائنٹ آف ویو سے دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مالک بلوچ صاحب بھی نئے سی ایم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں پہلے بھی نواز شریف نے بنایا تھا، اب پھر جا کر پاؤں پکڑے ہیں۔ ہمیں بلوچستان کو ان کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا۔

آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں

جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہی مسئلہ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس کا نوجوانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطی

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطی بلوچستان کو سرداروں کے سپرد کرنا ہے۔ چاہے پھر وہ کوئی بھی تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ یہ بلوچستان کے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں، مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کیا۔

 بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہے

دوسری جانب ٹوئٹر اسپیس میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہے اور لبریشن آرمی کام کر رہی ہے۔ اس کی وجہ ڈیڑھ دہائی سے رہنے والی حکومتیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے وفاق کو کنفیوژن میں رکھا ہے۔ انہوں نے وفاق کو صحیح نہیں بتایا کہ بلوچستان میں کیا صورتحال ہے۔ اور اس سب کی وجہ لبریشن آرمی اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان: جمعیت علما اسلام نے ثالثی کی پیشکش کردی

بات چیت جاری ہے

ان کا کہنا تھا کہ اب بلوچستان میں جو حالات ٹھیک ہونے جا رہے ہیں، کیونکہ سرفراز بگٹی کی حکومت کی ان سے بات چیت جاری ہے۔ اور بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات پر راضی کریں۔ اور معاملہ حل کیا جائے۔

بلوچستان کی سب سے بڑی مجبوری

انہوں نے کہا کہ اس صوبے کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ 1970 سے لے کر اب تک اس صوبے میں کوئی ایک پارٹی حکومت میں نہیں آ سکی۔ جب بھی صوبے میں حکومت بنتی ہے۔ وہ اتحادی حکومت ہوتی ہے۔ جو پھر اپنے مطابق اس طرح کام نہیں کر پاتی۔

گریڈ 4 کی نوکری بھی بکتی تھی

نوجوانوں پر بات کرتے ہوئے شاہد رند نے کہا کہ نوجوان اس لیے مایوس ہیں کہ انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں۔ اور وہاں گریڈ 4 کی نوکری بھی پیسوں میں بکتی تھی۔ مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ چیزیں ختم کی ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں بلوچستان میں اس وقت حکومت کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے فیصلے کرنے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آسانی ہو رہی ہے۔

اسلام آباد میں فیصلہ کرنے والوں کو بلوچستان کی سمجھ ہی نہیں ہے، ظہور بلیدی

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بلوچستان کا مسئلہ بیرون دشمنوں کی جانب سے سپانسرڈ ہے۔

انہوں نے کہاکہ بیرون ممالک کی دشمن ایجنسیاں بلوچستان کے حالات کو جان بوجھ کر خراب کر رہی ہیں، دوسری جانب بلوچستان میں ایک شکایات کی جو لسٹ ہے، اس کو بھی اپنے مفاد کے لیے غلط استعمال کیا گیا ہے، اور اینٹی اسٹیٹ بیانیہ بنایا گیا ہے۔

ظہور بلیدی نے کہاکہ جہاں تک بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنے کے بات ہے، اس کے لیے فوری حکمت عملی اپنانا پڑے گی، صوبائی اور وفاقی حکومت سمیت جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں، سب کو مل کر ایک اسٹریٹیجی بنانی چاہیے، اس وقت ہمارے نوجوانوں کو دوبارہ سے مین اسٹریم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے حوالے سے بلوچستان کی حکومت نے کافی اقدامات کیے بھی ہیں۔

صوبائی حکومت یوتھ انگیجمنٹ پروگرام کررہی ہے

انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت یوتھ انگیجمنٹ پروگرام کررہی ہے، اور اس کے علاوہ ہمارا ایک 10 سالہ ڈیولپمنٹ پروگرام ہے، جس کے تحت بلوچستان کی محرومیوں پر سرمایہ کاری کریں گے، تاکہ بلوچستان بھی باقی صوبوں کے برابر آ جائے، اور اس میں حکومت کو کامیابی ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس چیز پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام کو اپنے بیانیے پر لایا جائے، اس کے علاوہ لوگوں میں اس نظام کے حوالے سے امید پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ہماری حکومت اتحاد کے ساتھ کام کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو حالات کی بہتری اور ڈیولپمنٹ اقدامات کے ذریعے قائل کیا جا سکے کہ وہ اسپانسرڈ دہشتگردی کی طرف نہ جائیں، اس کے  درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔

بلوچستان کو وفاق کی جانب سے نظرانداز کیا گیا

ظہور بلیدی نے کہاکہ بلوچستان کی روٹ کازز کو ٹھیک کرنا چاہیے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ بلوچستان کو وفاق کی جانب سے نظرانداز کیا گیا، پاکستان کے 11 فیصد غریب بلوچستان میں ہیں، جبکہ بلوچستان کی آبادی 6 فیصد ہے۔ ہماری پالیسیاں جو اسلام آباد میں یا پھر کوئٹہ میں بنتی رہیں، ان میں بڑے نقص تھے، کیونکہ زمینی حقائق کچھ اور تھے۔

انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں جب بات پہنچ جاتی ہے تو اس میں ایک بڑا فرق ہے، جیسا کہ تربت کے مسائل سے متعلق جب اسلام آباد میں بات کی جائے گی تو وہ نظریہ بھی درمیان میں آ جاتا ہے، اس کا ایک ریسرچ بیسڈ حل نکالنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp