نسل کش روایتیں، سماجی پہلو اور نفسیاتی اثرات

منگل 3 جون 2025
author image

مہ پارا ذوالقدر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ماں بننا ہر عورت کے لیے ایک خواب ہوتا ہے، لیکن جب یہی خواب ایک نہ ختم ہونے والے درد اور خوف میں بدل جائے تو وہ ماں ہر لمحہ جیتی اور مرتی ہے۔

میانوالی کی رابعہ بھی ایسی ہی ایک ماں ہے، جس کے 2 بچے جینیاتی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوئے۔ وہ ہر دن اپنے بچوں کی سانسیں گِن کر گزارتی ہے۔

رابعہ کی کہانی صرف ایک خاندان کی نہیں، بلکہ ان ہزاروں خاندانوں کی نمائندگی کرتی ہے جو قریبی رشتہ داروں میں شادی کے نتیجے میں نسل در نسل بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

’ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ چچا کے بیٹے سے شادی، ہماری آنے والی نسل کی تباہی کا باعث بنے گی‘، رابعہ دکھ بھری آواز میں کہا۔

رابعہ کی شادی چچا کے بیٹے سے ہوئی تھی، یہ فیصلہ خاندان کی روایت کے تحت کیا گیا تھا۔ اس کا پہلا بیٹا دل کے پیدائشی مرض (Congenital Heart Disease) میں مبتلا ہے، جبکہ دوسرا تھیلیسیمیا (Thalassemia) کا مریض ہے۔
یہ دونوں بیماریاں جینیاتی ہیں، جو عموماً قریبی رشتہ داروں میں شادی کی وجہ سے آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر سہیل فاروق ایک تجربہ کار چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں، وہ برسوں سے میانوالی میں بچوں کے مختلف امراض کے علاج معالجے اور تحقیق میں مصروف ہیں، ڈاکٹر سہیل کے مطابق، ’ہمارے پاس روزانہ ایسے کئی کیسز آتے ہیں جن میں بچے پیدائشی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے سے تھیلیسیمیا، سسٹک فائبروسس، دماغی معذوری، ہیموفیلیا، نیورولوجیکل ڈس آرڈرز، ذیابیطس، اور دیگر سنگین بیماریاں سامنے آتی ہیں‘۔

پاکستان میں 60 سے 70 فیصد شادیاں قریبی رشتہ داروں کے درمیان ہوتی ہیں، جن میں پنجاب اور سندھ سرفہرست ہیں۔ ان شادیوں کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں بچے مختلف جینیاتی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 بچے تھیلیسیمیا کے مریض کے طور پر رجسٹر کیے جاتے ہیں، اور قریبی رشتہ داروں کی شادیاں اس کی اہم وجہ ہیں۔
ڈاکٹر ماہرہ نسا میانوالی میں گائناکالوجسٹ ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ، ’قریبی رشتہ داروں میں شادی کی صورت میں خواتین کو حمل کے دوران پیچیدگیوں، مردہ بچوں کی پیدائش، بار بار اسقاط حمل، اور خون کی شدید کمی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ کم عمری میں شادی کی صورت میں یہ خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں کیونکہ جسمانی نشوونما مکمل نہیں ہوتی‘۔

اس حوالے سے مذہبی نقطہ نظر بھی قابلِ غور ہے۔ مفتی عبدالعزیز اسلامی علوم کے ماہر ہیں، وہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ، ’اسلام عقل و فہم اور صحت کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ اگر کوئی عمل نسل کی بیماری کا سبب بنے تو وہ عمل قابلِ غور و اجتناب ہے۔ قریبی شادی بذات خود منع نہیں، لیکن اگر اس سے نقصانات واضح ہوں تو شریعت اسے ناپسند کرتی ہے۔

مفتی عبدالعزیز نے قرآن مجید کا حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالی قران مجید میں ارشاد ہیں، ’ وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّهْلُكَةِ ترجمہ، اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو‘۔

میانوالی ہی سے ڈاکٹر عائشہ ناصر جینیاتی تحقیق کی ماہر ہیں، وہ شادی سے مطلق مشورہ دیتی ہوئی کہتی ہیں کہ ’شادی سے پہلے جینیاتی ٹیسٹنگ، خاص طور پر تھیلیسیمیا اور دیگر بیماریوں کے لیے، نہایت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس بارے میں شعور نہ ہونے کے برابر ہے‘۔

سماجی دباؤ اس مسئلے کو اور بھی پیچیدہ بناتا ہے۔ رابعہ کی ساس نے کہا تھا، ’باہر کی بہو کیا جانے ہمارے رسم و رواج کیا ہوتے ہیں؟‘۔ ایسے جملے لڑکیوں کو اپنے حقِ رائے سے محروم کر دیتے ہیں۔

لڑکیوں کی مرضی اکثر دباؤ، غیرت، اور خاندانی عزت کے نام پر دبا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قریبی شادیوں کو ترجیح دی جاتی ہے، چاہے اس کے نتائج کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔

معروف سماجی کارکن زینب یوسف قریبی رشتہ داروں میں شادی سے پیدا ہونے والے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’ہم اکثر صرف جسمانی بیماریوں پر بات کرتے ہیں، لیکن ایسے خاندانوں میں جہاں ایک یا ایک سے زیادہ بچے مستقل بیمار رہتے ہیں، والدین، خاص طور پر مائیں شدید ذہنی دباؤ، مایوسی اور معاشرتی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ دیہات میں تو لوگ الزام بھی ماں پر دھر دیتے ہیں کہ یہ اُس کی نحوست ہے۔

زنیب کہتی ہیں کہ دیہاتی علاقوں میں کمیونٹی سطح پر آگاہی سیشنز اور خواتین کے لیے جذباتی معاونت کی محفلیں ہونی چاہئیں، تاکہ وہ اپنی بات کھل کر بیان کر سکیں۔ اگر گھر کی عورت کو علم ہو کہ بیماری کا تعلق رسم سے ہے، تو وہ خاموشی سے قربانی نہیں دے گی۔

اس صورتِ حال کی گہرائی کو بیان کرتے ہوئے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نادیہ اکرام کہتی ہیں، ’جینیاتی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے والدین، خاص طور پر مائیں اکثر بے چینی، ذہنی دباؤ، احساسِ گناہ اور ناکامی کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ جب بچے بار بار بیمار ہوں، بول نہ سکیں یا خود سے کھانے پینے کے قابل نہ ہوں تو ماں کی نیند، ذہنی سکون، اور یہاں تک کہ اُس کی اپنی صحت بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے کیسز میں نفسیاتی مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہسپتالوں میں جینیاتی بیماریوں کے مریض بچوں کے والدین کے لیے نفسیاتی مشاورت کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے۔ جب ماں کو سنا جائے گا، اس کے دکھ کو تسلیم کیا جائے گا، تبھی وہ ذہنی طور پر سنبھل کر بچے کی بہتر دیکھ بھال کر سکے گی۔

میڈیکل ریسرچ کیا کہتی ہے؟

آج میڈیکل سائنس نے کزن میریج یا قریبی شادیوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی بارے بتا دیا، اب اگر کوئی باوجود ثابت شدہ تحقیق کو نہیں مانتا تو وہ اپنی نسلوں کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے۔

قریبی رشتہ داروں میں شادی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے نام درج ذیل ہیں،

1. تھیلیسیمیا (Thalassemia)

2. سائسٹک فائبروسس (Cystic Fibrosis)

3. سپائنل مسکیولر ایٹروفی (Spinal Muscular Atrophy)

4. سنسورینورل سماعت کی کمی (Sensorineural Hearing Loss)

5. مائیکروسیفالی (Microcephaly)

6. پیدائشی دل کی بیماریاں (Congenital Heart Diseases)

7. نیورولوجیکل ڈس آرڈرز (Neurological Disorders)

8. آٹو سومی ریسیسیو ڈس آرڈرز (Autosomal Recessive Disorders)

9. دماغی معذوری (Intellectual Disability)

10. ہیموفیلیا (Hemophilia)

11. ذیابیطس کی بعض اقسام (Certain Types of Diabetes)

اگرچہ پاکستان میں کم عمری کی شادی اور جینیاتی بیماریوں کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، مگر ان کا عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ شادی سے پہلے جینیاتی مشاورت، شعور اور آگاہی مہمات کا آغاز ہو تو آنے والی نسلوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے سکول، کالج، یونیورسٹی، مسجد و مدرسہ، سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

صرف رسم و رواج کے نام پر اپنی آنے والی نسلوں کو بیماریوں کے سپرد کرنا اخلاقی، سماجی، مذہبی اور طبی جرم ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم عقل و دانش اور آگاہی کی روشنی میں فیصلے کریں تاکہ آنے والی نسلیں صحت مند اور خوشحال ہوں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp