ایران کے تازہ و کاری ترین حملے پر اسرائیل بلبلا اٹھا، آیت اللہ خامنہ ای کو شہید کرنے کی دھمکی

جمعرات 19 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایران نے میزائلوں سے اسرائیل پر اب تک سب سے بڑا حملہ کردیا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیلی ذرائع نے بڑے پیمانے پر تباہی کا اعتراف کرلیا۔ ساتھ ہی اسرائیل بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا اور اس نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو شہید کرنے کی براہ راست دھکمی دے دی ہے۔

جنوبی اسرائیل کے شہر بئر سبع اور تل ابیب میں ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں کم از کم 126 افراد زخمی ہو گئے ہیں، جن میں سے 5 افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

اردن میں موجود الجزیرہ کی نمائندہ نور عودہ کے مطابق، ایرانی میزائل حملوں میں بئر سبع کا ’سوروکا اسپتال‘ بھی متاثر ہوا۔ اسپتال کو پہنچنے والا نقصان براہِ راست حملے سے نہیں ہوا بلکہ دھماکے کی شدت سے پیدا ہونے والی ارتعاشی لہر کے باعث ہوا۔ ایرانی سرکاری میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حملے کا اصل ہدف اسپتال کے قریب موجود ایک ’حساس تنصیب‘ تھی۔

مزید براں ایرانی میزائل حملے میں تل ابیب میں واقع اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ نور عودہ کے مطابق حملے سے شہر میں موجود اہم اقتصادی مرکز شدید طور پر متاثر ہوا ہے، جس کا فوری ردعمل اسرائیلی معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے۔

ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ ارنا‘ نے ٹیلیگرام پر جاری ایک بیان میں  کہا ہے کہ جمعرات کی صبح اسرائیل پر ہونے والے میزائل حملے کا اصل ہدف اسرائیلی فوج  کا کمانڈ اور انٹیلیجنس ہیڈکوارٹر تھا، جو ٹیکنالوجی پارک میں واقع ہے۔ ایرانی دعوے کے مطابق یہ فوجی انٹیلیجنس کیمپ جنوبی اسرائیلی شہر بئر سبع میں  سوروکا اسپتال کے ساتھ واقع ہے۔

یہ بھی پڑھیے ایران کا ’سجیل‘ میزائل کے ذریعے اسرائیل پر تازہ حملہ، اسرائیلی فوج کی شہریوں کو پناہ گاہوں میں منتقل ہونے کی ہدایت

ارنا کے مطابق حملے میں اسپتال کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ اسے صرف دھماکے کی ارتعاشی لہر سے معمولی نقصان پہنچا۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ فوجی انفرا اسٹرکچر ایک درست اور براہ راست ہدف تھا۔

ایرانی حکام نے اس حملے کو دفاعی اقدام قرار دیا ہے، جس کا مقصد اسرائیل کے انٹیلیجنس نیٹ ورک کو کمزور کرنا تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں کشیدگی عروج پر ہے۔

واضح رہے کہ اس حملے میں تل ابیب اور دیگر علاقوں میں بھی دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، اور اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کو بھی نقصان پہنچنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کو ختم کرنا ملک کے جنگی مقاصد میں سے ایک ہے، اسرائیلی وزیر دفاع

اسرائیل کے وزیر دفاع کاٹز کا کہنا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ’ختم کرنا‘ ملک کے جنگی مقاصد میں سے ایک ہے۔

واضح رہے کہ تازہ حملے میں ایرانی میزائلوں نے وسطی اور جنوبی اسرائیل کے 4 مقامات بشمول سوروکا اسپتال کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیلی فورسز نے ایران کے اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر پر حملہ کیا ہے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع نے ایران کے سپریم لیڈر کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب مزید (زندہ) نہیں رہ سکتے۔

کاٹز کے یہ تبصرہ ایرانی میزائل حملے پر اسرائیل میں غم و غصے کے بعد سامنے آیا ہے۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس کا اصل ہدف نزدیکی اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس سائٹ تھی۔

یہ بھی پڑھیے ایران کا ایک اور اسرائیلی ایف 35 جنگی جہاز مار گرانے کا دعویٰ، مجموعی تعداد 5 ہوگئی

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی جانب سے یہ پیغام واضح ہے کہ وہ صرف سفارتی سطح پر ہی نہیں بلکہ فوجی میدان میں بھی جارحانہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، اور اسرائیلی حساس مقامات کو براہِ راست نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

نیتن یاہو کی ٹوئٹ

اسرائیل پر ایران کے تازہ تباہ کن حملے نے اسرائیلی قیادت کے اوسان خطا کر دیے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران تصادم: نیتن یاہو کی ڈوبتی سیاست کو کنارہ مل گیا

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن نے ایران کے تباہ کن حملے پر اپنے شدید ردعمل میں ایران کو سخت نتائج کی خبر دی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے ایکس پر کی گئی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آج صبح ایران کے آمرانہ حکمرانوں نے بیئر شیوا اسپتال کے سوروکا اسپتال اور ملک کے وسطی علاقے میں لوگوں پر میزائل برسائے۔

یاد رہے کہ آج صبح ایرانی میزائل حملے میں اسرائیل کے بیئر شیوا شہر میں واقع ’سوروکا اسپتال‘ کو نقصان پہنچایا ہے۔

واضح رہے کہ ایرانی حکومت نے یہ اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے۔

ایران کا سجیل 2 میزائل: اسرائیل میں تباہی مچانے والے جدید ترین ہتھیار کی خاص بات کیا؟

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی میں ایرانی فوج نے جو میزائل استعمال کیے، ان میں ’سجیل 2‘ نامی بیلسٹک میزائل خاص طور پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

دنیا بھر میں اس میزائل کے آسمان پر بننے والے مناظر اور اس کی تباہ کن طاقت پر بحث جاری ہے، جب کہ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیل کا جدید فضائی دفاعی نظام ان میں سے کئی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا۔

ایرانی خبر رساں ادارے ’تسنیم‘ کے مطابق، ایران نے اسرائیل پر حملے کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے سجیل 2 میزائل کا استعمال کیا، جو 2000 کلومیٹر یا اس سے زائد فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسرائیلی عسکری تجزیہ کار ڈورون کدوش کے مطابق، یہ میزائل جس نے اسرائیل کے ڈین بلاک نامی علاقے کو نشانہ بنایا، وہ نہ صرف اپنے حجم بلکہ اس میں بھرے گئے دھماکا خیز مواد کے اعتبار سے بھی انتہائی طاقتور تھا۔

ان کے بقول ایران نے اس نوعیت کے وزنی میزائل محدود تعداد میں فائر کیے ہیں، جو اس حملے کی شدت اور خاص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔

سجیل 2 میزائل کی خصوصیات کیا ہیں؟

سجیل 2 میزائل دو مرحلوں پر مشتمل ایک بیلسٹک میزائل ہے، جو ٹھوس ایندھن پر کام کرتا ہے۔ یہ خصوصیت اسے روایتی مائع ایندھن والے میزائلوں کے مقابلے میں زیادہ موثر بناتی ہے، کیونکہ اس میں ایندھن بھرنے کا مرحلہ درکار نہیں ہوتا، اس لیے اسے فوری طور پر لانچ کیا جا سکتا ہے۔

اس کی لانچنگ سپیڈ اور درستگی دوسرے ایرانی میزائلوں کے مقابلے میں بہتر سمجھی جاتی ہے۔

اس میزائل میں 500 سے 650 کلوگرام وزنی وار ہیڈ نصب کیا جا سکتا ہے، جو اسے دشمن کے اہداف کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔

سجیل کی رینج اور تیاری کا پس منظر

ایران عام طور پر اپنے مغربی علاقوں سے اسرائیل پر میزائل داغتا ہے، تاہم سجیل 2 کی طویل رینج کی بدولت اسے ملک کے کسی بھی علاقے سے فائر کیا جا سکتا ہے، جو اسے ایک تزویراتی برتری فراہم کرتا ہے۔

ایران نے 1990 کی دہائی کے آخر میں میزائل پروگرام پر باقاعدہ کام شروع کیا تھا، جبکہ سجیل میزائل کا پہلا کامیاب تجربہ نومبر 2008 میں کیا گیا، جس کے بعد اسے ایرانی ہتھیاروں کے ذخیرے کا ایک اہم حصہ بنا دیا گیا۔

ایرانی حملوں کی شدت اور پیغام

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ میزائل حملے اسرائیلی کارروائیوں کے جواب میں کیے گئے، اور یہ حملوں کی تیرہویں لہر تھی۔

ایران کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی شہری شیلٹرز میں رہیں یا مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ دیں، کیونکہ ان کی جارحیت کا سخت جواب دیا جائے گا۔

ایرانی فوج نے اس کے ساتھ ہی ہائپرسونک میزائل کے استعمال کا بھی دعویٰ کیا ہے، جو موجودہ تنازع کو مزید خطرناک سطح پر لے جا سکتا ہے۔

کوئی نہیں جانتا میں کیا کرنے والا ہوں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر ممکنہ امریکی حملے کے بارے میں کوئی واضح اعلان کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شاید میں حملہ کروں، شاید نہ کروں، کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے والا ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں:وائٹ ہاؤس میں اہم ملاقات: صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قائدانہ اور فیصلہ کن صلاحیتوں کو سراہا

انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ کے خواہاں نہیں، لیکن اگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ سخت اقدام اٹھا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جوہری خطرے کی موجودگی میں چپ بیٹھنا ممکن نہیں ہوتا، لیکن اگر ایران اپنی پالیسی تبدیل کرے اور مذاکرات کی طرف آئے، تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ ایران تصادم کے بجائے بات چیت کا راستہ اپنائے، ورنہ نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔

جب ان سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے اسرائیل اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش پر ردِعمل پوچھا گیا، تو ٹرمپ نے طنزیہ انداز میں کہا، میں نے پوتن سے کہا، پہلے اپنی جنگ (یوکرین والی) سلجھاؤ۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل تنازع: روس ثالثی کے لیے تیار ہے، پیوٹن کا عرب امارات کے صدر سے رابطہ

یہ بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان فضائی حملوں کا تبادلہ جاری ہے، اور دونوں طرف جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ اس کشیدگی کے دوران امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ بھی کر دیا ہے، جبکہ عالمی برادری صورتحال کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایران کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا، روسی صدر پیوٹن

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان لڑائی ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ ممکن ہے، اور اسرائیلی حملوں نے ایرانی عوام کو ان کی قیادت کے گرد متحد کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’صیہونی حکومت سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی‘، آیت اللہ علی خامنائی

پیوٹن نے غیر ملکی صحافیوں سے ایک براہِ راست نشریاتی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج ایران میں عوام اپنی سیاسی قیادت کے گرد متحد ہو رہے ہیں۔ یہ ایک نازک معاملہ ہے، اور ظاہر ہے ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا، لیکن میری رائے میں اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی معاہدہ ایران کے سویلین نیوکلیئر پروگرام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کی سیکیورٹی کو بھی یقینی بنا سکتا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کی فضائی کارروائیاں ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں، جبکہ ایران ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

پیوٹن نے کہا میرا خیال ہے کہ ہمارے لیے بہتر ہوگا کہ ہم سب مل کر لڑائی بند کرنے کے راستے تلاش کریں اور اس تنازعے میں شامل فریقین کو معاہدے کی طرف لے جانے کی کوشش کریں۔

انہوں نے بتایا کہ روس کے 200 سے زائد ملازمین ایران کے جنوبی شہر بوشہر میں قائم نیوکلیئر پاور پلانٹ میں کام کر رہے ہیں، جو روس کی کمپنی روساٹوم نے تعمیر کیا ہے۔ پیوٹن نے کہا کہ اسرائیلی قیادت کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ ان کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی درخواست، ایران نے ٹرمپ کا دعویٰ جھوٹ قرار دیدیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ روس ایران کے ساتھ اس کے سویلین نیوکلیئر پروگرام پر کام جاری رکھ سکتا ہے اور اس شعبے میں ایران کے مفادات کو یقینی بنا سکتا ہے۔

پیوٹن کی پیشکش مسترد

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز پیوٹن کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ روسی صدر کو پہلے یوکرین میں جاری اپنی جنگ ختم کرنی چاہیے۔

 ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا میں نے کل ان سے بات کی، اور وہ واقعی ثالثی کی پیشکش کر رہے تھے۔ میں نے کہا کہ ایک کام کرو، پہلے اپنی جنگ کی ثالثی کرو۔

روسی مداخلت کے بعد سے ماسکو نے ایران کے ساتھ دفاعی تعلقات میں اضافہ کیا ہے۔ جنوری میں دونوں ممالک کے درمیان ایک وسیع تر اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔

دریں اثنا، یوکرین اور اس کے اتحادی طویل عرصے سے ایران پر روس کو ڈرونز اور قلیل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

یوکرین پر حملے اور غزہ میں جاری جنگ نے اسرائیل کے ساتھ روس کے روایتی طور پر خوشگوار تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے، خاص طور پر جب کہ اسرائیل میں بڑی تعداد میں روسی نژاد افراد آباد ہیں۔

ایران پر ممکنہ فوجی حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں، سینیئر امریکی حکام

اعلیٰ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جو آنے والے دنوں میں ممکن ہے۔

یہ خبر امریکی میڈیا ادارے ’بلومبرگ‘نے بدھ کے روز شائع کی جس نے یہ رپورٹ صورت حال سے باخبر امریکی حکام سے گفتگو کی بنیاد پرتیار کی۔ نیوز رپورٹ کے مطابق، سینیئر امریکی حکام آئندہ چند دنوں میں ایران پر ممکنہ فوجی حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔

یہ اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور اسرائیل پہلے ہی خطے میں بڑے پیمانے پر حملوں میں مصروف ہے۔

یہ بھی پڑھیے امریکی صدر نے ایران کے خلاف جنگ میں شمولیت کا حتمی فیصلہ مؤخر کیوں کیا؟

بلومبرگ کے مطابق، بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ اس ہفتے کے اختتام پر ایران پر حملہ کیا جاسکتا ہے تاہم صورتحال میں اب بھی کسی بھی انداز کی تبدیلی ہوسکتی ہے کیونکہ  بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مبہم بات کی جس سے اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ میں شریک ہوں گے یا نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا ’ہوسکتا ہے کہ میں حملہ کرنے کا حکم دوں، ہوسکتا ہے کہ میں ایسا کوئی حکم نہ دوں۔ میرا مطلب ہے کہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا اکثر حملہ کی تیاری کی خبریں جاری کرکے سفارتی دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ  پہلے بھی اس حکمتِ عملی پر کئی بار عمل کرچکا ہے خاص طور پر ایران جیسے ممالک کے خلاف، جنہیں امریکا جوہری خطرہ قرار دیتا ہے۔

ٹرمپ کا غیر واضح مؤقف — ایک پرانی تکنیک

ٹرمپ کی یہ روش پرانی ہے کہ وہ  اپنے فیصلہ کے بارے میں صورت حال کو غیر واضح رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ میڈیا، اتحادیوں اور مخالفین پر ذہنی دباؤ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف، اگر صورتحال خطرناک شکل اختیار کرجائے، تو وہ یہ کہہ کر پتلی گلی سے نکل سکتے ہیں کہ میں نے تو کبھی فیصلہ کیا ہی نہیں تھا۔

ممکنہ امریکی حملے کے خلاف ایران کی تیاری اور پیغام

ایران پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر امریکا براہِ راست جنگ میں شامل ہوا تو عراق، شام، خلیج کے امریکی اڈے نشانے پر ہوں گے۔ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ امریکا جنگ میں کودا تو آبنائے ہرمز کی بندش، حوثیوں کی بحری کارروائیاں، اور علاقائی عدم استحکام یقینی ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی درخواست، ایران نے ٹرمپ کا دعویٰ جھوٹ قرار دیدیا

خلیجی ریاستیں سب خطرے میں ہوں گی۔ عالمی تیل منڈی اور توانائی کی ترسیل پر شدید اثر پڑے گا۔ اسرائیل پر ایران اور اس کے اتحادیوں کے حملے بڑھ سکتے ہیں، خاص طور پر  شمالی محاذ سے حزب اللہ کے ذریعے۔

کیا یہ جنگ ہو گی؟

امریکا کے براہ راست جنگ میں شریک ہونے کا امکان ضرور ہے، تاہم یقینی نہیں۔ کیونکہ دونوں فریق بخوبی جانتے ہیں کہ ایک مکمل جنگ معاشی، سیاسی اور انسانی سطح پر تباہ کن ہو گی۔ امریکا کی طرف سے حملے کی خبریں لیک کرنا شاید ایران کو ’دباؤ‘ میں لانے کی کوشش ہے تاکہ وہ دفاعی پوزیشن اختیار کرے یا پیچھے ہٹے۔

یہ بھی پڑھیے ایران اسرائیل جنگ میں امریکا کی شمولیت پر چین کا سخت بیان، نتائج کیا ہوں گے؟

اگر امریکا نے ایران پر براہ راست حملہ کیا تو یہ صرف ایران امریکا کا تنازعہ نہیں رہے گا  بلکہ یہ پورے مشرق وسطیٰ کو لپیٹ میں لے لے گا، جس کے اثرات عالمی معیشت، سیکیورٹی، اور سیاسی نظام پر پڑیں گے۔

امریکی صدر نے ایران کے خلاف جنگ میں شمولیت کا حتمی فیصلہ مؤخر کیوں کیا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے منصوبوں کی منظوری دی ہے تاہم ابھی تک مکمل جنگ میں شمولیت کا حتمی فیصلہ مؤخر کردیا ہے۔

سی بی ایس نیوز اور وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ٹرمپ ایران کو اپنے جوہری پروگرام سے دستبرداری کا موقع دینا چاہتے ہیں، اس لیے فیصلہ آخری لمحے میں کریں گے۔ ادھر اسرائیل اور ایران کے درمیان فضائی حملے جاری ہیں، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے تہران میں کئی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے جبکہ ایران نے 400 بیلسٹک میزائل اور ایک ہزار ڈرون اسرائیل پر داغے ہیں۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کے 40 فیصد بیلسٹک میزائل لانچرز تباہ کر دیے ہیں اور ایرانی فضائی دفاع کے کئی اعلیٰ افسران مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے تازہ حملوں میں اسفہان، نطنز اور دیگر جوہری مراکز کو نشانہ بنایا ہے تاہم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق فورڈو، خنداب، بوشہر اور تہران ریسرچ ری ایکٹر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

مزید پڑھیں: امریکا سن لے، ایران سرینڈر نہیں کرے گا، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا دوٹوک اعلان

امریکی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس نتیجہ خیز فیصلے کے بغیر ختم ہوا تاہم یہ امکان زیر غور ہے کہ امریکہ اپنی جدید بمبار طیاروں کے ذریعے فرود پر حملہ کرے گا، جہاں یورینیم کو ہتھیاروں کے درجے تک افزودہ کیا جا سکتا ہے۔

امریکی بحری بیڑے میں نمایاں نقل و حرکت جاری ہے اور مشرق وسطیٰ میں تعینات ہیں اور خطے میں امریکی موجودگی میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ فرانسیسی صدر نے ایران اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے لیے وزیر خارجہ جان نوئل بارو کو نامزد کیا ہے جبکہ روسی صدر پیوٹن نے ایران میں موجود روسی ماہرین کی سلامتی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کے درمیان گرم جوش گفتگو ہوئی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ کسی بھی فوجی مداخلت کے ناقابل تلافی نتائج ہوں گے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ وہ دباؤ میں مذاکرات نہیں کرے گا اور ہر خطرے کا جواب بھرپور جوابی خطرے سے دے گا۔

​​امریکا کی اسرائیل میں اپنے شہریوں کو محفوظ مقامات پر رہنے کی ہدایت

امریکا نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے پیش نظر اسرائیل میں موجود اپنے شہریوں، سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ تاحکم ثانی محفوظ مقامات پر رہیں اور غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کریں۔

امریکی سفارت خانے نے اسرائیل اور مغربی کنارے میں موجود تمام امریکی سرکاری اہلکاروں اور ان کے اہلِ خانہ کو محفوظ مقام پر رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ موجودہ بحران کے پیش نظر ایسے تمام ممکنہ اقدامات پر کام کر رہا ہے جن کے ذریعے امریکی شہریوں کے اسرائیل سے محفوظ انخلا میں مدد فراہم کی جا سکے۔​

امریکا کی ممکنہ مداخلت خطے کو آگ میں دھکیل سکتی ہے، روس کا انتباہ

روس نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدہ صورتِ حال پر امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر واشنگٹن اس تنازع میں مداخلت کرتا ہے تو اس سے نہ صرف جنگ کا دائرہ وسیع ہوگا بلکہ ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل ہونے کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔

روس کے صدارتی ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کے روز ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اگر امریکا نے اس تنازع میں براہ راست مداخلت کی تو یہ نہ صرف اس تنازع کی شدت میں اضافہ کرے گا بلکہ اس کے جغرافیائی دائرے کو بھی وسعت دے گا۔ اور یہ ایک نیا زیادہ خطرناک مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ایران اسرائیل تنازع: روس ثالثی کے لیے تیار ہے، پیوٹن کا عرب امارات کے صدر سے رابطہ

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بدھ کی شام متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو میں کہا ہے کہ روس ایران اور اسرائیل کے تنازع کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کے لیے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا، روسی صدر پیوٹن

کریملن کی جاری کردہ بیان کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے درمیان میں موجود کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ تنازع خطے کے لیے بہت منفی نتائج لا سکتا ہے ۔

پیوٹن نے کہا کہ روس دونوں فریقین کے ساتھ رابطے میں ہے اور گفتگو کے پلیٹ فارم کے قیام کے لیے مدد فراہم کر سکتا ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ مسئلہ نازک ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے ۔

روسی صدر نے یہ بھی بتایا کہ ماسکو نے ایرانی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم دونوں کے ساتھ رابطہ کر رکھا ہے اور روس نے ان کی سکیورٹی کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا سن لے، ایران سرینڈر نہیں کرے گا، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا دوٹوک اعلان

پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ روس نے ایران کی سول نیوکلیئر سرگرمیوں میں تعاون جاری رکھا ہے، خاص طور پر بوشہر نیوکلیئر پلانٹ کے منصوبوں کے ذریعے۔

یاد رہے کہ ایک روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کی ثالثی کی پیشکش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے پہلے پیوٹن کو اپنی جنگ ختم کرنی چاہیے، یعنی یوکرین پر جاری تنازع کا حل نکالنا چاہیے ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp