ڈکٹیٹروں کا پشتی بان امریکا اور ایک ادیب کی چشم کشا تقریر

اتوار 22 جون 2025
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کچھ عرصہ قبل ممتاز شاعر احمد مشتاق نے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں بتایا کہ وہ بہت برسوں بعد ڈی ایچ لارنس کے مضامین کا مجموعہ ’اسٹڈیز ان کلاسیک امریکن لٹریچر‘ دوبارہ پڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کی سائیکی کو جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے کیوں کہ ان مضامین کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا آج دنیا میں کیا کرنا چاہ رہا ہے۔

احمد مشتاق نے لارنس کے طرزِ تحریر اور نثر کی بڑی تعریف کی، ان کے بقول ان مضامین کا انداز بے تکلف گفتگو جیسا ہے۔ انہوں نے ہرمن میلول کے ناول ’موبی ڈک‘ پر لارنس کے مضمون کی تعریف کی اور ہاتھورن کے ناول ’حرفِ سرخ‘ (سکارلیٹ لیٹر) سے متعلق مضمون کا تذکرہ کیا۔ احمد مشتاق نے ’حرفِ سرخ‘ پر لارنس کے مضمون کے جس حصے کا خاص طور حوالہ دیا اسے آپ ان کے عزیز اور ذی علم دوست مظفر علی سیّد کے ترجمے کی صورت میں ملاحظہ کیجیے:

امریکیوں کا عمدی شعور، اتنا خوش شکل اور نرم کلام مگر تحتِ شعور اس قدر شیطانی۔ برباد کرو، برباد کرو، برباد کرو، تحتِ شعور گنگناتا رہتا ہے۔ پیار کرو، اور پیار کرو، پیار کرو اور پیار کرو، بالائی شعور اعلان کرتا رہتا ہے۔ اور دنیا صرف پیار کرو، پیار کرو کا اعلان سنتی ہے اور نیچے تحتِ شعور کی تباہ کن گنگناہٹ پر کان دھرنے سے انکار کرتی ہے، اس وقت تک کہ جب اسے سننا ہی پڑے۔ امریکا برباد کرنے پر مجبور ہے، یہی اس کی تقدیر ہے۔‘

(بحوالہ: فکشن، فن اور فلسفہ، ڈی ایچ لارنس کے منتخب مقالات: ترجمہ، توضیحات، تعارف: مظفر علی سید)

افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنے اعمال سے بار بار ڈی ایچ لارنس کی رائے درست ثابت کی ہے۔ لارنس کا یہ بیان علامہ اقبال کے اس مصرع کی یاد دلاتا ہے:

چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

ڈی ایچ لارنس 1930 میں انتقال کر گئے تھے، اسی برس انگلینڈ میں ہیرلڈ پنٹر پیدا ہوئے جنہوں نے ڈراما نگار کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل کیا اور 2005 میں ادب کے نوبیل انعام کے حق دار ٹھہرے، نوبیل انعام ملنے کے موقعے پر انہوں نے بذریعہ ویڈیو جو تقریر کی اس میں امریکا کی ’برباد کرو، برباد کرو، برباد کرو‘ کی دیرینہ پالیسی کا تیاپانچہ کیا تھا۔ اس میں انہوں نے عراق پر امریکی حملے کے خلاف اپنا مؤقف بھرپور طریقے سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا کی سفارت کاری کی سیاہ کاری پر روشنی ڈالی تھی جس سے ہم جمہوریت کے چیمپیئن اور انسانی حقوق کے علمبردار کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

ہیرلڈ پنٹر نے ایک بڑے پلیٹ فارم کو سپر پاور کی چیرہ دستیاں بیان کرنے کے لیے استعمال کیا اور اس صورت حال میں ادیب کے کردار کو بھی زیر بحث لائے۔ اس تقریر میں انہوں نے تھوڑا ذکر اپنے ڈراموں کا بھی کیا لیکن ان کی گفتگو کا محور امریکا کی دراز دستیوں کی حقیقی تصویر پیش کرنے پر رہا تھا۔

ہیرلڈ پنٹر کی یہ چشم کشا تقریر میں نے 2009 میں کراچی سے شائع ہونے والے معتبر ادبی جریدے ’آج‘ میں پڑھی تھی۔ اس کا ترجمہ رسالے کے مدیر اور ممتاز مترجم اجمل کمال نے کیا ہے۔ اس تقریر کی ایک اور خاص بات پنٹر کی جرات رندانہ ہے اور اسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بے باکی ہر ادیب کے بس کا روگ نہیں ہے، موجودہ حالات پر قلم اٹھاتے ہوئے اسی تقریر سے روشنی اور روشنائی لی گئی ہے۔

آج ایران کو عراق بنانے اور اس کے سپریم لیڈر کو صدام حسین جیسے انجام تک پہنچانے کی باتیں کھلے بندوں ہو رہی ہیں، ایسے عزائم کی بازگشت سے ’رجیم چینج‘ کے بعد عراق کی بربادی کا تصور کرکے جی کانپ جاتا ہے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے اور عظیم تہذیبی ورثہ خاکستر ہو گیا تھا۔

ایک بار پھر جمہوریت کے نام پر ’رجیم چینج‘ کا سفاکانہ کھیل رچانے کی خبریں گردش کررہی ہیں اور ’اہل جمہوریت‘ کو شاہ ایران کا ساواک زدہ ’جمہوری‘ دور بھی یاد آنے لگا ہے۔ ایک طرف ایران کو ’آزاد‘ کرانے کے نام پر برسائے گئے بموں کا دھواں ہے تو دوسری طرف ’پہلوی شہزادہ‘ تخت نشینی کے لیے لنگوٹ کس رہا ہے۔

گاؤدی دانشور اسرائیل اور امریکا کو ایران میں جمہوریت کی آخری امید قرار دے رہے ہیں۔ حملے کی زد میں آئے ایران میں انسانی حقوق کی پامالی انہیں رہ رہ کر یاد آتی ہے لیکن اس مناسبت سے حملہ آوروں کے ’قابلِ رشک‘ ریکارڈ کی طرف وہ نگاہِ غلط انداز بھی نہیں ڈالتے۔ یہ جمہوری نابغے ’رجیم چینج‘ کے قبیح سیاسی عمل کو بھی روا جانتے ہیں۔ اسرائیل کے مظالم کا قصہ طولانی ہے جس کی بدترین صورت ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں تک امریکا کی بات ہے تو جمہوریت کے’فروغ‘ کے لیے اس کی خدمات سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں جن میں ڈکٹیٹروں کی سرپرستی اور ان کے مظالم کی اعانت کے قصے متن اور حاشیے ہر جگہ بکھرے ہیں۔

اب ہم آجاتے ہیں ہیرلڈ پنٹر کی تقریر کے مندرجات کی طرف جس میں انہوں نے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے دروغ کو فروغ دینے کی پالیسی کے بارے میں لکھا ہے۔ اس میں جھوٹ کی فرماں روائی ہوتی ہے اور سچ سے عوام کو دور رکھا جاتا ہے۔ وہ عراق پر حملے کے لیے تراشے گئے حیلوں کی بات کرتے ہیں۔ صدام حسین کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا واویلا کیا گیا تھا۔ اس کا القاعدہ سے رشتہ جوڑ کر اسے نائن الیون کی ذمہ داری میں شریک ٹھہرایا گیا اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت کرنے کے لیے کیسے کیسے ’ثبوت‘ فراہم کیے گئے، پنٹر کے خیال میں یہ پورا مقدمہ ہی جھوٹ پر قائم کیا گیا تھا۔

اس تقریر میں پنٹر کی تنقید کا رخ صرف امریکا کی جانب نہیں رہتا اور وہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ ان کے بقول ’امریکا اقوام متحدہ، بین الاقوامی قانون یا تنقیدی اختلاف رائے کو، جو اسے بے طاقت اور غیر متعلق معلوم ہوتا ہے، دو کوڑی کا بھی نہیں گردانتا۔ اور اس کی ایک اپنی پالتو، میں میں کرتی بکری ہے جو اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے، قابلِ رحم اور لدھڑ برطانیہ عظمٰی۔‘

اقوام متحدہ کی بے توقیری پر علامہ اقبال یاد آتے ہیں جنہوں نے لیگ آف نیشنز کے بارے میں جو کہا تھا وہ اس کی جگہ لینے والے عالمی ادارے پر بھی صادق آتا ہے:

جمعیتِ اقوام

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے

ڈر ہے خبرِ بد نہ مرے منہ سے نکل جائے

تقدیر تو مبُرم نظر آتی ہے و لیکن

پِیرانِ کلیسا کی دُعا یہ ہے کہ ٹل جائے

ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پِیرکِ افرنگ

اِبلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

اردو کے ممتاز ادیب اور نقاد شمس الرحمان فاروقی کو یہ نظم ان کے والد نے بچپن میں پڑھائی تھی اور وہ اسے مغربی استعمار کے بارے میں اپنے فہم کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ اس نظم میں بیان کردہ حقیقت کے بارے میں ان کا تبصرہ ان کی کتاب ’خورشید کا سامانِ سفر‘ میں شامل ہے جس کا یہ اقتباس حسبِ حال معلوم ہوتا ہے:

’یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی سچے ہیں جتنے اس وقت تھے جب اقبال نے انہیں قلمبند کیا تھا، فرق یہ ہے کہ نام بدل گیا ہے، آج کی یو این او بھی امریکا کے ہاتھ میں اسی طرح کٹھ پتلی ہے جس طرح کل کی جمعیت اقوام (League of Nations)مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں موم کی ناک جیسی تھی۔ فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کے خلاف معمولی سے معمولی تجویز بھی ناکام ہو جاتی ہے کیوں کہ امریکا اپنا حقِ استرداد (veto) بے دھڑک استعمال کرتا ہے، اور اگر تجویز منظور بھی ہو جائے تو کون اس کی پروا کرتا ہے، امریکا کا سایہ اسرائیل کے سر پر ہے۔ عراق پر حملہ کرنا ہو تو اقوامِ متحدہ کچھ بھی کہتی رہے، امریکا اور اس کے ہمنوا من مانی کر گزرتے ہیں اور دنیا ٹک ٹک دیکھتی رہتی ہے۔‘

اب ہم دوبارہ امریکی حملے کے بارے میں پنٹر کی رائے سے رجوع کرتے ہیں جس میں ایسے لوگوں کے لیے شرم کا خاصا سامان ہے جو ایرانی عوام کو ’جمہوریت‘ کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ پنٹر کے بقول ’ہم نے عراقی عوام پر تشدد، کلسٹر بم، ڈپلیٹیڈ یورینیم، اندھا دھند قتل کی بے شمار وارداتیں، بربادی، ذلت اور موت نازل کی ہے اور اسے مشرقی وسطیٰ میں آزادی اور جمہوریت لانے کا نام دیتے ہیں۔‘

وہ بش اور بلئیر کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سامنے پیش کرنے کا تقاضا کرتے ہیں جس کی بش نے تو نہیں البتہ بلئیر نے توثیق کی تھی لہٰذا وہ عدالت کو برے کے گھر کا پتا بھی بتاتے ہیں:

10، ڈاؤننگ اسٹریٹ، لندن

پنٹر ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں، ان کے خیال میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں ظلم و بربریت کی داستانیں دستاویزی صورت میں مرتب ہوئی ہیں لیکن ان کے بقول ’اسی عرصے میں امریکا نے جو جرائم کیے ان کو محض سرسری انداز سے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ امریکا کے جرائم منظم، متواتر، پُرکینہ اور کسی پچھتاوے سے عاری ہیں لیکن بہت کم لوگوں نے ان کے متعلق واقعی بات کی ہے۔‘

وہ امریکا کے طریقہ واردات کو بیان کرتے ہیں جس میں کسی ملک کو لاچار اور بے بس کر دینے کے بعد صورتِ حال جو رخ اختیار کرتی ہے اسی کے لیے ’جمہوریت کے دلدادگان‘ اتاولے ہو رہے ہیں:

’آپ کے اپنے دوست، فوج اور عظیم کارپویشنیں، اطمینان سے اقتدار پر قابض ہوں، تب آپ کیمرے کے سامنے جا کر کہتے ہیں کہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔‘

امریکا کی سفاکی ظاہر کرنے کے لیے پنٹر نے نکارا گوا کی داستانِ الم کو منتخب کیا اور لندن میں امریکی سفارت خانے کے ایک اجلاس کا آنکھوں دیکھا احوال لکھا ہے جس میں وہ نکارا گوا کی طرف سے ایک وفد کے رکن تھے۔ اس وفد کے اہم ترین رکن ایک پادری جان مٹکاف تھے جنہوں نے امریکی سفارت کار سے نکارا گوا میں کونٹرا باغیوں کی حمایت سے دست کش ہونے کی استدعا کی تھی اور اس کی دلخراش وجہ کچھ یوں بیان کی تھی:

’سر! میں شمالی نکارا گوا میں ایک پیرش کا نگران ہوں، میرے پیرش کے ارکان نے ایک اسکول، ایک مرکزِ صحت اور ایک ثقافتی مرکز قائم کیا ہے، ہم امن سے رہتے آئے ہیں، چند ماہ پہلے ایک کونٹرا دستے نے پیرش پر حملہ کیا، انہوں نے سب کچھ تباہ کر ڈالا۔ اسکول، مرکزِ صحت، ثقافتی مرکز۔ انہوں نے انتہائی بہیمیت کے ساتھ نرسوں اور استانیوں کو ریپ کیا، ڈاکٹروں کے گلے کاٹے، انہوں نے وحشیوں کا سا برتاؤ کیا، براہِ کرم یہ مطالبہ کیجیے کہ امریکی حکومت اس صدمہ انگیز دہشتگرد کارروائی کی حمایت ترک کر دے۔‘

اس پر سرد مہر امریکی سفارت کار ریمنڈ سیٹز نے جواب دیا۔ ’میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، جنگ میں بے قصور لوگ ہمیشہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔‘

پنٹر نے بتایا ہے کہ صدر ریگن نے کہا تھا کہ کونٹرا امریکا کے فاؤنڈنگ فادرز کے مساوی اخلاقی مقام رکھتے ہیں، یہ پڑھ کر معاً ذہن میں آیا کہ ریگن نے ایسا ہی بلند درجہ افغان مجاہدین کو بھی عطا کیا تھا اور ہم نے بعد میں انہیں شدت پسندانہ کارروائیوں میں کونٹرا باغیوں کے برابر ہی پایا۔

پنٹر نے لکھا ہے کہ امریکا نے نکارا گوا میں سوموزا کی بہیمانہ آمریت کی 40 برس حمایت کی اور جب ساندینستا کی قیادت میں عوامی انقلاب نے اس کا تختہ الٹ دیا تو یہ امریکا کی برداشت سے باہر تھا۔ ساندینستا میں بھی خامیاں تھیں لیکن اس نے اپنے ملک کو بہتری کی راہ پر ڈال دیا تھا اور کئی ایسے فیصلے کیے جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا ہوئی تھی۔ انہیں مفت تعلیم اور مفت علاج کی سہولت ملنے لگی، پولیو کا خاتمہ ہو گیا، عوام کے طرزِ زندگی میں یہ بہتری امریکا سے ہضم نہ ہوئی کہ مبادا ہمسایہ ملکوں میں سماجی اور معاشی انصاف کی خوشبو پھیلنے لگے سو اس نے وہی کیا جس کی اس سے توقع کی جاسکتی تھی:

’آخر کار امریکا نے ساندینستا حکومت کا خاتمہ کردیا، اس میں کچھ سال لگے اور خاصی مزاحمت ہوئی لیکن متواتر اقتصادی گھیراؤ اور 30 ہزار لوگوں کی ہلاکت نے انجام کار نکارا گوا کے عوام کی ہمت کو پست کر ڈالا، وہ ایک بار پھر تھکن اور غریبی کی زد میں آگئے۔ کیسینو ملک میں لوٹ آئے، مفت علاج اور مفت تعلیم ختم ہوگئی۔ بگ بزنس پوری طاقت سے عود کر آیا۔ ’جمہوریت‘ کی فتح ہوگئی۔‘

یہ ہے جمہوریت کی وہ نیلم پری جس کے امریکا کی بچھائی بساط پر ورود کے لیے عقل کے اندھے دانشور باؤلے ہو رہے ہیں۔

پنٹر نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ان ممالک کے فہرست پیش کی ہے جہاں امریکا نے فوجی آمریت کی حمایت کی یا مطلق العنان حکمران کی کھلی پشت پناہی کی، اس سلسلے کی ایک بدترین مثال چلی کی ہے جہاں اس نے 1973 میں جو ہولناکیاں نازل کیں پنٹر کے بقول ’ان کی کبھی تلافی نہیں ہوسکتی اور ان کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔‘

پنٹر نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ امریکا کے جرائم صحیح معنوں میں دستاویز نہیں ہوتے لیکن میرے خیال میں اس کمی کی بہت حد تک تلافی تو ان کی اس تقریر سے ہو جاتی ہے جس میں انہوں نے امریکا کی شقاوتوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ 16 برس سے میں نے اس تقریرِ لاجواب کو سینت کر رکھا ہے اور جب کسی ’جمہوریت پسند‘ کو امریکا پرستی کا دورہ پڑتا ہے اس کا شافی علاج ہیرلڈ پنٹر کی اسی تقریر سے کرتا ہوں اور کئی مواقع پر یہ نسخہ مجرب ثابت ہوا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp