ایرانی ایٹمی سائنسدان ’مصطفیٰ ساداتی ارمکی‘ کی موت کی خبر — جو اپنی بیوی، دو بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ اسرائیلی حملے میں مارے گئے، کسی بھی سخت دل منصوبہ ساز کو بھی چونکا دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ یہ صرف ایک درست نشانہ نہیں تھا، بلکہ ایک پورے خاندان کو چن کر مارنے کی کارروائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی حملے میں جاں بحق ایرانی سائنسدانوں میں کون کون شامل ہے؟
ساداتی ارمکی کوئی اعلیٰ عہدیدار نہیں تھے، وہ درمیانے درجے کے انجینئر تھے جو ایران کے جوہری منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ممکن ہے اسی وجہ سے انہیں ہدف بنایا گیا ہو، لیکن کسی بھی منطق سے ان کے بچوں کو ان کے گھر میں قتل کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔

یہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہے۔ 13 جون کو اسرائیل کے حملوں میں تہران میں 5 دیگر ایٹمی ماہرین بھی مارے گئے، جن فریدون عباسی، محمد مہدی طہرانچی، عبدالحمید مینوچہر، احمدرضا ذوالفقاری دریانی اور سید امیر حسین فقہی شامل ہیں۔
یہ سب جوہری منصوبے سے کسی نہ کسی درجے میں وابستہ تھے، لیکن کوئی بھی جنگجو نہیں تھا۔ زیادہ تر پروفیسر تھے، کچھ تو پہلے ہی سرکاری ذمہ داریوں سے ریٹائر ہو چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر فریدون عباسی کون تھے؟
اور ان کے ساتھ بھی صرف وہی نہیں مارے گئے۔ کئی واقعات میں ان کے اہلِ خانہ بھی ساتھ مارے گئے، بیویاں، بیٹیاں، یہاں تک کہ ایک سینئر افسر کی بیٹی بھی۔
یہ حملے کسی مصروف شہر میں غلطی سے گرنے والے میزائل نہیں تھے۔ یہ سوچ سمجھ کر رات کے وقت کیے گئے حملے تھے، جب خاندان اپنے گھروں میں موجود تھے۔ یہ کوئی جنگی دھند نہیں تھی، بلکہ جنگ کو ایک ہتھیار کے طور پر جان بوجھ کر استعمال کرنا تھا۔

بچے نہ تو یورینیم افزودہ کرنے کی پالیسی بناتے ہیں، نہ بیویاں لیبارٹریز چلاتی ہیں، لیکن وہ صرف اس لیے مارے گئے کہ وہ کسی مطلوب شخص کے قریبی تھے۔
ایسے سانحات کو ’حادثاتی نقصان‘ کہنا بزدلی ہے۔ جب کوئی فیصلہ ساز کسی گھر کو نشانہ بناتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اندر کون سو رہا ہے، تو پھر یہ حادثہ نہیں، ایک ارادی عمل ہوتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غیر روایتی جنگ میں دشمن کو ذاتی طور پر خوفزدہ کرنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ خوفزدگی نہیں، بلکہ صاف طور پر ’صفایا‘ہے۔ یہ سوچ دکھاتی ہے کہ اب ریاستی ڈھانچوں سے جڑے کسی بھی شہری کی جان کی کوئی قدر نہیں رہی۔ پیغام یہ دیا جا رہا ہے کہ حتیٰ کہ سائنسدانوں کے خاندان بھی محفوظ نہیں۔
The assassinated nuclear scientist Fereydoon Abbasi had spoken about whether he feared being killed in his last interview, conducted only a couple weeks ago. The answer was that he didn't care. pic.twitter.com/85RlkJCqro
— Séamus Malekafzali (@Seamus_Malek) June 13, 2025
یہ تحریر ایران کی جوہری پالیسی کی حمایت نہیں کر رہی، بلکہ اس اصول کی حمایت کر رہی ہے کہ خاندان، خاص طور پر بچے، کبھی بھی دشمن نہیں ہوتے۔
اگر ہم یہ اصول چھوڑ دیتے ہیں، تو ہم کچھ حاصل نہیں کر رہے، بلکہ یہ مان رہے ہیں کہ قانون سے زیادہ خوف اور سفارت سے زیادہ بدلہ اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’کوئی ثبوت نہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنا رہا ہے‘، بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی
ایسے حملے نہ تو جوہری منصوبے بند کرتے ہیں، نہ ہی مستقبل کے خطرات کو روکتے ہیں۔ یہ صرف امن کو مزید دور اور بدلہ کو مزید قریب کرتے ہیں۔ جو چیز آج ہم معمول بنا رہے ہیں، کل دوسرے اس کی نقل کریں گے۔
یہ طاقت نہیں ہے، یہ حکمتِ عملی اور اخلاقیات، دونوں کی شکست ہے۔ اگر جنگ کا رخ اسی طرف ہے، تو دنیا کے ہر انسان کو، کسی بھی قوم سے ہو، شدید تشویش ہونی چاہیے۔