پی ٹی آئی کا نیا امتحان، مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد اگلا قدم کیا ہوگا؟

اتوار 29 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے مخصوص نشستوں پر نااہلی کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو ایک نئے سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی میں اپنی نمائندگی محدود ہونے پر پارٹی نہ صرف عددی اعتبار سے کمزور ہوئی ہے بلکہ مستقبل کی پارلیمانی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔

ایسی صورتحال میں اب سب کی نگاہیں اس چیز پر ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت اب ایسا کیا کرے گی، کس قسم کی نئی حکمت عملی مرتب کرکے سیاسی میدان میں اپنی گنجائش پیدا کی جائے گی، اور اس کے لیے اگلا سیاسی قدم کیا ہوگا؟

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن، پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں مینڈیٹ چوروں کو دے دی گئیں، بیرسٹر گوہر

سب سے پہلے پارٹی کے اندر اتحاد و اتفاق قائم کرنا ہوگا، ماجد نظامی

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک حکمت عملی وضع کرے جس میں اس چیز کا فیصلہ ہو کہ پارٹی کے اندر اتحاد اور اتفاق کیسے ممکن ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ پارٹی کے تمام رہنماؤں کی مختلف آرا سامنے آنے کے بعد پارٹی کی ایک متفقہ حکمت عملی نہیں بن پائی، اور اب عمران خان اور ان کے تمام پارٹی رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کس حکمت عملی سے اپنی جماعت کو مزید نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔

ماجد نظامی نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ اس وقت ریاست اور ریاستی اداروں کا انتقام پسندانہ رویہ ہے، جس کی بنیاد پر وہ تحریک انصاف کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اس مخاصمت زدہ ماحول سے راستہ نکالنا بھی سیاستدانوں کا ایک اہم کام ہوتا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کو سب سے پہلے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔ اور ایک حکمت عملی بنانی ہوگی، چاہے اس پر مفاہمت ہو یا مزاحمت لیکن اس کے ذریعے خود کو اس مشکل وقت سے نکالنے کے لیے عملدرآمد کیا جائے، کیونکہ پاک بھارت جنگی کشیدگی کے بعد اسٹیبلشمنٹ ہو یا پھر حکومت وہ مضبوط ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اب مداخلت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگا، اس لیے جب ان کی جانب سے سختی بڑھے گی تو تحریک انصاف کو بھی کوئی حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔

پی ٹی آئی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے عدالتی فیصلے کو اچھالے گی، احمد ولید

سیاسی ماہر احمد ولید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کا اگلا قدم یہی ہوگا کہ وہ اس چیز کو اچھالیں گے کہ ہمارے خلاف عدالتوں نے فیصلہ دیا ہے، اور اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ایک ایسی پارٹی جس کے سربراہ آزاد الیکشن لڑے اور اس پارٹی میں یہ پارٹی شامل ہو رہی ہے، اس طرح سے نشستیں نہیں مل سکتیں۔

انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے قوانین یہ اجازت نہیں دیتے کہ ایک ایسی پارٹی جس کا پارلیمنٹ میں کوئی وجود نہیں ہے، اس کو مخصوص نشستیں مل جائیں، یہ معاملہ الیکشن کمیشن سے شروع ہوا اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک گیا، اب اس فیصلے پر تو یقیناً تنقید ہوگی، جس پارٹی کے خلاف فیصلہ آیا ہے اس نے غلطی تسلیم نہیں کرنی۔

احمد ولید نے کہاکہ جماعت اسلامی کی جانب سے انہیں آفر تھی، اگر اس کے ساتھ یہ لوگ مل جاتے اور پھر ایسا فیصلہ آتا، اور الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا کرتے تو آپ کا کہنا بنتا تھا کہ بھئی ہم تو ایک ایسی پارٹی کے ساتھ ملے ہیں جن کے پاس پہلے ہی نشستیں تھیں، تو یہ غلطیاں وہ ان کیمرہ نہ سہی بلکہ آف کیمرہ مانتے کہ بھئی ہم سے یہ غلطی ہوگئی۔

انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف صرف وکٹم کارڈ کھیل رہی ہے، کب سارا ظلم انہی کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ ظلم جمہوریت میں پاکستان میں تمام پارٹیوں کے ساتھ ہوتے رہے ہیں، لیکن انہوں نے سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھا، آپ کو بھی سیاست میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ نے یہ مرحلہ کیسے کور کرنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی اسٹریٹیجی پر ہی پوری پارٹی چل رہی ہے، کیونکہ کوئی اور بندہ نہیں ہے کہ وہ پارٹی کے اندر فیصلہ لے سکے، عمران خان نے جو فیصلہ کرنا ہے اسی فیصلے پر عملدرآمد ہونا ہے۔

پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا، رانا عثمان

سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار رانا عثمان نے کہاکہ تحریک انصاف نے تو اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، بلکہ انہوں نے اس فیصلے کو ذوالقفار علی بھٹو کے فیصلے سے جوڑا ہے کہ بھٹو شہید کا پھانسی کا فیصلہ بھی غلط تھا۔

’وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی چھبیسویں آئینی ترمیم ختم ہوگی یہ فیصلہ بھی ختم ہو جائے گا، پی ٹی آئی کو اب اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اور پھر اس کا فیصلہ آتے ہوئے برسوں لگ جائیں گے، اور پی ٹی آئی کے حق میں کچھ نہیں آنا۔‘

انہوں نے بتایا کہ فیصلہ تو ہو چکا ہے، لیکن اب پی ٹی آئی کے پاس سوائے احتجاج کے کچھ نہیں بچا، یا پھر اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی کارڈ نہیں، اس موقع پر یہ کہنا کہ پی ٹی آئی کی سیاست ختم ہو چکی ہے یہ قبل از وقت ہوگا، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اور پی ٹی آئی کا ایک بڑا ووٹ بینک ابھی بھی موجود ہے، لیکن یہ الگ بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس وقت منتشر نظر آرہی ہے کیونکہ ان کو جوڑنے اور متحد رکھنے والا لیڈر جیل میں بیٹھا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پارٹی کے اندر اتنی کنفیوژن ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ پارٹی کے اندر ہونا کیا ہے بیرسٹر گوہر الگ بات کرتے ہیں، باقی قیادت الگ بات کرتی ہے جبکہ علی امین گنڈا پور کے بیانات پر الگ الزامات لگتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں الگ سے تحریک انصاف کنفیوژن اور توڑ پھوڑ کا شکار ہے، لیکن اب پی ٹی آئی کو ان حالات کے اندر کچھ ڈیلیور کرنے کی طرف جانا چاہیے، ان کے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے، کارکردگی پر دھیان دینا چاہیے۔

’پی ٹی آئی کے پاس صوبے میں حکومت، کارکردگی پر دھیان دینا چاہیے‘

رانا عثمان نے کہاکہ گزشتہ 2 برس میں جو انہوں نے اڈیالہ جیل کے باہر ڈیرے لگائے ہیں، ان کا انہیں نقصان ہی ہوا ہے، اس لیے انہیں ایک حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی سیاسی جگہ بنائیں، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب یہ اپنے مؤقف میں لچک لے کر آئیں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں عوام کو جواب دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کس کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟

انہوں نے کہاکہ سوات کا واقعہ ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور اس دوران جب لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے تو علی امین گنڈا پور اڈیالہ کے باہر عمران خان کو رہا کروانے کی کوشش کررہے تھے، اس لیے حکمت عملی اور سیاست میں گنجائش پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp