برطانیہ کے وزیراعظم کیر اسٹارمر فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے پر غور کررہے ہیں، دو سینئر حکومتی عہدیداروں نے پیر کو اس بات کی تصدیق کی جس کے پیچھے غزہ میں بڑھتی ہوئی انسانی بحران اور عوامی دباؤ کا بڑا ہاتھ ہے۔
یہ پیشرفت برطانوی خارجہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کی علامت ہے، کیونکہ 250 سے زائد ارکان پارلیمنٹ بشمول حکومتی جماعت لیبر پارٹی کے کچھ ارکان نے حکومت سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ مطالبہ اس ہفتے ایک اہم اقوام متحدہ کی کانفرنس سے قبل سامنے آیا ہے، جو دو ریاستی حل کو دوبارہ زندہ کرنے پر مرکوز ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان علما کونسل کا اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق کانفرنس کی تائید کا اعلان
حکومتی ذرائع کے مطابق کیراسٹارمر کی کابینہ غزہ میں قحط اور شہریوں کی اموات کے بعد اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے، جہاں اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے انسانی امداد کی ترسیل میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ قحط سے متاثر بچوں کی تصاویر اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بے چینی نے حکومتی افسران کے خیالات کو متاثر کیا ہے۔
برطانوی وزیراعظم نے ماضی میں فلسطینیوں کے خود مختاری کے حق کی حمایت کی تھی، لیکن ابھی تک فلسطین کو فوری طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کو الگ ریاست تسلیم کرنا ’ایک سطحی قدم‘ہوگا جو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔
ان کے خیال میں فلسطین کو الگ ریاست تسلیم صرف اس صورت میں کیا جانا چاہیے جب یہ دو ریاستی حل اور فلسطینیوں و اسرائیلیوں کے لیے مستقل سیکیورٹی کا حصہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ میں عالمی کانفرنس کی تیاریاں، سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم
تاہم برطانوی وزیر اعظم پر سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے، ان کی کابینہ کے کئی ارکان فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے اس ہفتے ایک ہنگامی کابینہ اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے، جس سے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم اسٹارمر نے اس معاملے کو اسکاٹ لینڈ میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران بھی اٹھایا۔ ٹرمپ نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی فلسطین کو تسلیم کرنے کی حالیہ کوشش کو ’اثر سے خالی‘ قرار دیا، لیکن برطانیہ کے اس فیصلے پر تنقید کرنے سے گریز کیا۔
اسٹارمر نے ٹرمپ سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی اپیل کی تاکہ غزہ میں امداد کی ترسیل میں رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ سابق امریکی صدر نے اس بات کی حمایت کی کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مل کر غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مراکز قائم کیے جائیں۔
اسٹارمر کا موقف ان کے قانونی پس منظر اور بین الاقوامی بحرانوں سے نمٹنے کی سیاسی حقیقتوں کے درمیان توازن کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ فلسطین کو فوری طور پر تسلیم کرنا جلدبازی ہوگی اور اس سے برطانیہ کی عالمی سطح پر اثر و رسوخ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی رکنِ پارلیمان کا اپنے ملک سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ
دوسری جانب، اس قدم کی حمایت کرنے والوں کا خیال ہے کہ برطانیہ کی تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کرے اور غزہ میں جاری انسانی المیے پر عالمی توجہ مرکوز کرے۔














