ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مصنوعی میٹھاس کینسر کے علاج میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے۔
سائنسدانوں نے چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس کے طور پر استعمال ہونے والا عام جزو سوکرولوز کچھ اقسام کی امیونوتھراپی یعنی مدافعتی نظام پر مبنی کینسر کے علاج کو متاثر کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسمانی وزن کم کرنے کے لیے مصنوعی مٹھاس استعمال نہیں کرنی چاہیے، عالمی ادارہ صحت
یونیورسٹی آف پٹسبرگ کی تحقیق کے مطابق سوکرولوز سے چوہوں کی آنتوں میں موجود بیکٹیریا میں تبدیلی آئی، جس کے باعث ایسے بیکٹیریا بڑھے جو آرجینین نامی قدرتی امینو ایسڈ کو ختم کرتے ہیں۔ آرجینین وہ مادہ ہے جس کی مدد سے ٹی سیلز یعنی جسم کے مدافعتی خلیے کینسر سے لڑتے ہیں۔
تحقیق کی سربراہ پروفیسر ایبی اووراکر نے کہا، ’کینسر کے مریض پہلے ہی ذہنی اور جسمانی دباؤ میں ہوتے ہیں، ایسے میں ان سے کہنا کہ وہ اپنی خوراک سے ڈائیٹ سوڈا یا مصنوعی مٹھاس چھوڑ دیں، شاید مناسب نہ ہو۔ ‘
یہ بھی پڑھیں: کیا آپ چینی کے بغیر مزیدار کیک بنا سکتے ہیں؟
لیکن سائنسدانوں نے اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل بھی تلاش کر لیا ہے، جب ان چوہوں کو آرجینین یا سٹرو لِن کے سپلیمنٹس دیے گئے تو علاج کی تاثیر بحال ہوگئی۔
مطالعے کے دوران وہ چوہے جنہیں کینسر کے خلاف ’اینٹی پی ڈی ون‘ (امیونوتھراپی دی گئی اور ساتھ میں سوکرولوز کھلایا گیا، ان میں کینسر کے ٹیومرز بڑے رہے اور بقا کی شرح کم رہی۔
تحقیق کے دوسرے مرحلے میں جلد یا پیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا 132 مریضوں کا جائزہ لیا گیا۔ جن مریضوں کی خوراک میں سوکرولوز زیادہ تھا، ان پر امیونوتھراپی کا اثر بھی کم پایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سروائیکل کینسر سے بچاؤ ممکن: ماہرین کا HPV ویکسین کو قومی پروگرام میں شامل کرنے کا مطالبہ
مطالعے کے سینیئر مصنف ڈاکٹر دیوکار داور نے کہا کہ ان نتائج کی روشنی میں مخصوص پری بایوٹک یا غذائی سپلیمنٹس تیار کیے جاسکتے ہیں جو سوکرولوز کے اثرات کو کم کرسکیں، سٹرو لِن سپلیمنٹ آرجینین کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔














