امریکی ایلچی تھامس بیراک نے دعویٰ کیا ہے کہ لبنان اتوار (31 اگست) کو ایک منصوبہ پیش کرے گا جس کا مقصد حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جنوبی لبنان سے اپنی فوج کی واپسی کے لیے ایک فریم ورک پیش کرے گا۔
لبنانی حکومت کا مؤقف
بیراک کے مطابق یہ منصوبہ فوجی دباؤ یا طاقت کے استعمال پر مبنی نہیں ہوگا بلکہ حزب اللہ کو قائل کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے لبنان حزب اللہ کو ملک بدر کرے ورنہ غزہ جیسے حالات کے لیے تیار رہے، اسرائیلی وزیراعظم
اس میں ایران سے مالی معاونت حاصل کرنے والے حزب اللہ کے جنگجوؤں پر پڑنے والے معاشی اثرات کو بھی شامل کیا جائے گا۔
لبنانی وزیرِاعظم نواف سلام نے کہا ہے کہ ملک نے ایک ناگزیر راستہ اختیار کر لیا ہے تاکہ تمام ہتھیار ریاستی کنٹرول میں آجائیں۔ فوج کو اگلے ہفتے تک ایک جامع منصوبہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اسرائیل کا ردِعمل
اسرائیل نے عندیہ دیا ہے کہ اگر لبنانی فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں پیش قدمی کرتی ہے تو وہ جنوبی لبنان سے اپنی فوجی موجودگی کم کرنے پر تیار ہے۔
بیراک نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد اسے ایک ’تاریخی پیش رفت‘ قرار دیا اور کہا:
’اسرائیل نے اب کہہ دیا ہے کہ وہ لبنان پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ واپس جانے پر راضی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ حزب اللہ کے ہتھیار ڈالنے کا عملی منصوبہ سامنے آئے۔‘
یہ بھی پڑھیے لبنانی کابینہ کا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا عزم، شیعہ وزرا کا واک آؤٹ
حزب اللہ کا ردِعمل
حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے ایک خطاب میں حکومت کے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اُنہوں نے کہا کہ قومی دفاعی حکمتِ عملی پر بات چیت اُس وقت ہی ہوگی جب اسرائیل مکمل طور پر 27 نومبر کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کرے۔
قاسم کے مطابق:
’پہلے وہ معاہدے پر عمل کریں، اس کے بعد ہم دفاعی حکمت عملی پر بات کریں گے۔‘

اقتصادی پہلو
حزب اللہ گزشتہ سال اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شدید کمزور ہوئی، جس میں اس کے کئی اعلیٰ کمانڈر مارے گئے۔
امریکی ایلچی نے کہا کہ حزب اللہ کے تقریباً 40 ہزار جنگجو ایران کی فنڈنگ پر انحصار کرتے ہیں، اس لیے اُنہیں غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ متبادل روزگار کی فراہمی ضروری ہے۔
بیراک نے بتایا کہ قطر اور سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک لبنان کی معیشت، خصوصاً جنوبی علاقے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں تاکہ حزب اللہ کے پیروکاروں کے لیے نئے معاشی مواقع پیدا کیے جا سکیں۔
اس مقصد کے لیے ایک اقتصادی فورم بنانے کی بات ہو رہی ہے، جسے امریکا، لبنان اور خلیجی ممالک مل کر سپورٹ کریں گے۔