اراکین پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری کی دوبارہ اشاعت کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آخری مرتبہ کس نے کتنا ٹیکس دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود ٹیکس وصولی میں شارٹ فال کا سامنا کیوں؟
پاکستانی معیشت مختلف مسائل کا شکار ہے اس میں سے ایک اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کاروباری شخصیات سیاست دان اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد مکمل ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
ماضی میں ایف بی ار کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری کی اشاعت کی جاتی تھی جس سے لوگوں کو پتا چل جاتا تھا کہ کس رکن نے پارلیمنٹ میں کتنا ٹیکس ادا کیا لیکن پھر یہ سلسلہ روک دیا گیا تھا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اب ایک بار پھر ٹیکس ڈائریکٹری کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف بی آر چیئرمین راشد محمود لنگڑیال اس کام کے لیے جلد وفاقی حکومت سے اجازت لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اراکین پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری کی اشاعت کا آغاز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سنہ 2013 میں کیا گیا تھا اور وہ سلسلہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران سنہ 2019 کے ٹیکس سال تک جاری رہا۔
آخری بار جنوری 2022 میں ٹیکس سال 2019 کی ڈائریکٹری شائع کی گئی تھی جس کے بعد یہ سلسلہ معطل ہو گیا تھا۔
مزید پڑھیے: تنخوادار طبقے کے لیے خوشخبری، انکم ٹیکس میں مزید کمی کی منظوری
ایف بی آر نے جنوری 2022 میں اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے سال 2019 میں جمع کرائے گئے ٹیکس کی تفصیلات شائع کی تھیں جن کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے 98 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔
شہباز شریف نے 82 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا تھا جبکہ آصف علی زرداری نے 22 لاکھ روپے، شاہد خاقان عباسی نے 49 لاکھ روپے جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 5 لاکھ 3 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت مختلف اراکین پارلیمنٹ نے صفر روپے ٹیکس جمع کرایا تھا جبکہ متعدد اراکین نے 5 ہزار روپے سے بھی کم ٹیکس جمع کرایا تھا۔
مزید پڑھیں: تنخواہ دار طبقے کو 7 ماہ میں کتنے ارب روپے اضافی انکم ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا گیا؟
ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق چونکہ ٹیکس ڈائریکٹری کی اشاعت کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے اس لیے بورڈ نے سمری تیار کرکے متعلقہ حکام کو ارسال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگلے ہفتے تک حکومت سے باقاعدہ منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایف بی آر اب ان افراد کے خلاف ’نامزدگی اور شرمندگی‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو اپنی آمدنی چھپا کر کروڑوں روپے کے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سندھ: زرعی انکم ٹیکس بل 2025 منظور، کس پر کتنا ٹیکس لگے گا؟
اس پالیسی کے تحت ٹیکس چوری کرنے والوں کے نام منظر عام پر لائے جا سکتے ہیں جس سے نہ صرف ٹیکس دہندگان پر دباؤ بڑھے گا بلکہ عوامی احتساب بھی ممکن ہو سکے گا۔