پی ٹی آئی کی آن بان شان سمجھے جانے والے علی امین گنڈاپور کی مقبولیت میں کمی کیوں آئی؟

بدھ 1 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور منصب پر فائز ہونے سے قبل نہ صرف پارٹی قیادت کے لیے اہم ترین مقام رکھتے تھے بلکہ کارکنان کے دلوں میں بھی ان کے لیے ایک خاص جگہ تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ ماضی میں جلسوں سمیت ہر ایونٹ میں کارکنان ان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے مگر اب ان کے خلاف نعرے بازی اور الزامات عام بات بن چکی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے دست راست اور قریبی ساتھی علی امین گنڈاپور کی پارٹی میں مقبولیت کا عروج سے زوال تک کا سفر کیسے ہوا، اور اس کے کیا محرکات ہیں؟ وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور نے علیمہ خان سے متعلق عمران خان کو کیا بتایا؟ تفصیلات آگئیں

علی امین کا پی ٹی آئی میں مقبولیت کے عروج سے زوال کا سفر کیسے شروع ہوا؟

علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کے اہم رہنما اور عمران خان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بھی تحریک انصاف سے کیا۔ وہ اس وقت مرکزی سطح پر مقبول ہوئے جب عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان مارچ کا اعلان کیا اور علی امین نے تمام انتظامات کیے۔

علی امین گنڈاپور اپنی پرجوش تقاریر اور مخالفین پر سخت تنقید کی وجہ سے کارکنان میں مقبول ہوئے۔ علی امین 9 مئی واقعات کے بعد بھی ڈٹے رہے اور پرویز خٹک کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد صوبائی صدر بنے، سخت حالات کا مقابلہ کرنے پر کارکنان کی نظر میں ان کی قدر مزید بڑھ گئی۔

لیکن اب پارٹی کارکنان نے اسی علی امین کے خلاف گزشتہ کچھ عرصے سے محاذ کھولا ہوا ہے اور کسی بھی پارٹی تقریب یا جلسے میں ان کے خلاف نعرے بازی معمول بن گئی ہے۔ جو کبھی پارٹی کی جان اور عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔

گزشتہ ہفتے عمران خان کی رہائی کے لیے پشاور جلسے میں کارکنوں نے ان کی تقریر کے دوران شور شرابہ کیا، جوتے دکھائے اور’اڈیالہ مارچ‘ کے نعرے لگائے، تاہم یہ پہلی بار نہیں تھا کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف ان کے سامنے ایسے نعرے لگے ہوں، بلکہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے ہی ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں اور علی امین پارٹی میں مشکل میں پھنس گئے ہیں۔

اس سے پہلے بھی دو بار اسلام آباد مارچ اور لاہور ریلی کے دوران کارکنان علی امین کو گھیر چکے تھے۔ ان پر عمران خان سے غداری اور دھوکہ دہی کے الزامات لگتے رہے جن کی علی امین ہمیشہ تردید کرتے آئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی شان سے کمپرومائز کے الزامات تک کا سفر

2024 کے عام انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ بننے تک پاکستان تحریک انصاف میں علی امین گنڈاپور کو نظریاتی رہنما اور عمران خان کے قریبی اور مشکل وقت کا وفادار ساتھی سمجھا جاتا تھا۔ عمران خان کی ایک تقریر بھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ علی امین ان کے مشکل وقت کے ساتھی ہیں۔

لیکن اب پی ٹی آئی کے کارکنان کی رائے علی امین کے بارے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان پر کمپرومائزڈ کے الزامات کھلے عام لگنے لگے، پشاور جلسہ ہو یا اسلام آباد ڈی چوک مارچ، کارکنان نے کھل کر علی امین کے خلاف نعرے لگائے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پشاور جلسے میں علی امین مزید بے نقاب ہوئے۔ کارکنان نے ان کے خلاف نعرے لگائے، جوتے دکھائے اور بوتلیں پھینکیں۔

علی امین گنڈاپور کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد حالات اس لیے تبدیل ہوئے کیونکہ وہ کارکنان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم میں کارکنوں کو نظرانداز کرنا اور عمران خان کی جیل سے رہائی میں تاخیر جیسے مسائل ان کی مشکلات کی بڑی وجہ بنے ہیں۔

‘علی امین وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں’

طارق وحید پشاور میں ایک نجی ٹی وی کے بیورو چیف اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان عمران خان کے علاوہ کسی اور کو لیڈر ماننے کو تیار نہیں اور عمران خان کے جیل میں ہونے پر وہ سخت غصے میں ہیں۔

ان کے مطابق کارکنان کی کوئی سیاسی تربیت نہیں ہوئی، اور وہ ہر معاملے پر جذباتی ردعمل دیتے ہیں جیسا کہ عمران خان کی تقاریر میں بھی جھلکتا ہے۔

طارق وحید کے مطابق وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد علی امین کی سیاست کا انداز بدل گیا ہے۔ وہ اس وقت وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں جو وقت کی ضرورت ہے۔ بطور وزیراعلیٰ اداروں کے ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا ان کی مجبوری ہے اور وہ تصادم والی سیاست نہیں کر سکتے جو کارکنان چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کارکنان کو غصہ عمران خان کی جیل میں موجودگی پر ہے اور ان کی امید علی امین سے ہے کہ وہ کپتان کو نکالیں گے۔ لیکن حقیقت شاید اس کے برعکس ہے۔

’علی امین ایک طرف حکومتی ذمہ داریاں اور دوسری طرف پارٹی کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ باہر جذباتی دکھائی دیتے ہیں مگر اندرون خانہ نرم رویہ رکھتے ہیں اور معاملات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

طارق وحید کے مطابق شاید عمران خان بھی علی امین سے مطمئن نہ ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سیٹ اپ میں اس عہدے کے لیے علی امین سے بہتر کوئی آپشن موجود ہے؟ ان کے خیال میں بالکل بھی نہیں۔’جس دن کوئی دوسرا مل گیا، علی امین اس عہدے پر نہیں رہ سکیں گے۔‘

’کارکنوں کی تمام امیدیں علی امین سے وابستہ تھیں‘

عبدالحکیم مہمند پشاور کے سینیئر صحافی ہیں اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ علی امین کی اس مشکل کے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ بننے سے پہلے علی امین نے پرجوش تقاریر کرکے کارکنان کو آخری امید بننے کا تاثر دیا تھا۔ عمران خان کی رہائی کے لیے بھی کارکنان کی نظریں ان پر تھیں، لیکن جب وہ رہائی ممکن نہ بنا سکے تو کارکنان نے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا۔

عبدالحکیم کے مطابق کارکنان کا خیال ہے کہ علی امین اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ عمران خان جیل میں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علی امین اس وقت مشکل میں ہیں۔ پارٹی تقریبات میں ان سے کھل کر سوالات کیے جا رہے ہیں اور نعرے بازی کی جا رہی ہے۔ ان حالات کے ذمہ دار علی امین خود ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ بننے کے فوراً بعد علی امین نے بے جا وعدے کیے، جن میں کارکنوں سے 9 مئی کے کیسز کا خاتمہ، پولیس اور سول افسران سے بدلہ اور عمران خان کی رہائی کے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک کے وعدے شامل تھے، لیکن یہ سب پورا کرنا آسان نہ تھا، اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کارکنان کی نظروں میں غدار قرار پائے۔

ان کے مطابق علی امین تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، چاہے وہ پارٹی کے ہوں یا حکومتی معاملات۔ اس وجہ سے ان کی مشکلات مزید بڑھ گئیں۔ ’وہ جنید اکبر کے معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہیں اور بیرسٹر گوہر کے بھی۔ اسی وجہ سے قیادت میں بھی ان کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔‘

عبدالحکیم نے مزید کہاکہ پی ٹی آئی کے کارکنان بے لگام ہیں۔ وہ عمران خان کے علاوہ کسی کو لیڈر نہیں مانتے، اور جس کے بارے میں ذرا سا بھی شک پیدا ہو جائے اس کی کھل کر مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ یہی صورت حال اس وقت علی امین گنڈاپور کو بھی درپیش ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہنیں بھی علی امین سے خوش نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی علی امین کا نام آیا اور مرزا آفریدی کو ٹکٹ دینے پر پارٹی میں اختلافات پیدا ہوئے۔ کارکنان کی نظروں میں علی امین قصوروار ٹھہرے۔

عبدالحکیم کے مطابق وزیراعلیٰ بننے کے بعد علی امین نے کارکنوں سے وعدہ کیا تھا کہ 9 مئی کے کیسز ختم ہوں گے، سرکاری افسران کے خلاف کارروائی ہوگی اور عمران خان کی رہائی کے لیے ملک گیر احتجاج ہوگا۔ لیکن جب یہ وعدے پورے نہ ہوئے تو کارکنان کی نظر میں ان کی قدر کم ہوگئی اور مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آگیا۔

ترجمان خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف کا مؤقف

مشیر اطلاعات اور خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ علی امین پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کا مکمل اعتماد ہے۔

ان کے مطابق اگر وزیراعلیٰ سے کسی کو پارٹی کے اندر اختلاف ہے تو انہیں بات سمجھانی چاہیے۔ ’جن لوگوں نے جلسے میں ہلڑ بازی کی، ان کو چاہیے تھا کہ جمہوری انداز میں بات کرتے۔ اگر کسی کی خواہش تھی کہ جلسہ ناکام ہو، تو ایسا نہیں ہوا، جلسہ کامیاب رہا، وزیراعلیٰ پر عمران خان کا مکمل اعتماد ہے۔‘

علی امین کا سیاسی سفر

علی امین گنڈاپور کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے بااثر گنڈاپور خاندان سے ہے۔ ان کے والد (مرحوم) پاک فوج میں میجر کے عہدے پر ریٹائر ہوئے تھے۔

علی امین نے عملی سیاست کا آغاز عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی سے کیا اور پہلی بار 2013 میں ممبر خیبر پختونخوا اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ پرویز خٹک کی کابینہ میں صوبائی وزیر بھی رہے۔ علی امین عمران خان کی ہر تحریک میں پیش پیش رہے اور ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان مارچ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد وہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔

علی امین گنڈاپور 2018 میں وہ مولانا فضل الرحمان کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں جے یو آئی اور پی پی پی کو شکست دینے پر ان کی پارٹی میں اہمیت بہت بڑھ گئی اور وہ عمران خان کی کابینہ میں وزیر بھی بنے۔

وفاق میں حکومت کے خاتمے اور 9 مئی کے واقعات کے بعد علی امین گرفتار بھی ہوئے اور میانوالی میں قید بھی رہے۔ رہائی کے بعد وہ کچھ عرصہ روپوش رہے۔ 2024 کے انتخابات کے دوران بھی وہ سامنے نہیں آئے۔ وہ اس وقت منظرعام پر آئے جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ اسی دوران عمران خان نے انہیں وزیراعلیٰ نامزد کیا، اور پشاور آمد پر ان کا شاندار استقبال ہوا،

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی احتجاج: کارکنوں نے علی امین گنڈاپور کے سامنے ڈی چوک جانے کے نعرے لگا دیے

کارکنان نے علی امین کو آخری امید قرار دے کر پھول نچھاور کیے۔ لیکن اب وہی کارکنان ان پر کمپرومائزڈ ہونے کا الزام لگا کر ان کے خلاف محاذ کھول چکے ہیں، جو دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سندھ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے نافذ، سخت کارروائی کا عندیہ

امریکی کمپنی کا پاکستان میں مینوفیکچرنگ بند کرکے ڈسٹری بیوٹر ماڈل پر منتقل ہونے کا فیصلہ

پشاور: پولیس وین کے قریب بم دھماکا، 4 اہلکار زخمی

صدرِ مملکت کی ’صمود غزہ فلوٹیلا‘ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت

اسلام آباد نیشنل پریس کلب پر حملہ اور پولیس تشدد، پی ٹی آئی کا سخت ردعمل

ویڈیو

میں خان صاحب کو پرانے زمانے سے جانتا ہوں،آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے! ڈمی مبشر لقمان

مونال کی جگہ اسلام آباد ویو پوائنٹ اب تک کیوں نہیں بنایا گیا؟

مریم نواز پنجاب کے حق کے لیے آواز ضرور اٹھائیں گی، خرم دستگیر

کالم / تجزیہ

پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی

لالو کھیت کا لعل۔۔ عمر شریف

نیتن یاہو کی معافیاں: اخلاقی اعتراف یا سیاسی مجبوری؟