رات کا سناٹا تھا، ہر طرف اندھیرا اور خاموشی تھی تاہم گاڑی میں پرانے دوستوں کے قہقہوں کی بلند آوازیں گونج تھیں۔
سالوں بعد بیرون ملک سے لوٹے اپنے پرانے دوست کو ایئرپورٹ سے لے کر ایبٹ آباد کی جانب رخ تھا کہ اچانک پولیس نے گاڑی رُوکنے کا اشارہ کیا۔
اے ایس آئی عاطف اور 2 اہلکاروں نے مہمان سمیت سب کی جامہ تلاشی لی اور جب کچھ ہاتھ نہ لگا تو اندھیرے میں لے جاکر 2 لاکھ روپے بھتے کا مطالبہ ہوا۔ کافی دیر منت سماجت کے بعد 50 ہزار پر ’ڈیل‘ طے ہوگئی اور لڑکوں کو ہتھکڑیاں لگا کر اے ٹی ایم لے جاکر رقم نکلوائی گئی اور ساتھ یہ پیغام بھی دیا گیا کہ یہ راز یہیں دفن ہوجائے گا۔
مگر پولیس اہلکاروں کی قسمت کہ اس پورے واقعے کی ویڈیو منظرِ عام پر آگئی۔ اگست 2024 میں ایبٹ آباد کے رہائشی ذبیح اللہ نے اس واقعہ کا مقدمہ درج کرایا ہے اور اب وہی اہلکار حوالات میں ہیں اور تفتیش جاری ہے۔ تاہم ایبٹ آباد پوچھ رہا ہے کہ جب وردی لالچ میں بک جائے تو حفاظت کا مطلب کیا رہ جاتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: سزائے موت کے مجرم کے اعزاز میں دعوت پر پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج
ریاست کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کو جان و مال کا تحفظ دینا ہے اور اسی مقصد کے لیے پولیس کا ادارہ قائم کیا گیا، مگر افسوس کہ عوام کی حفاظت کے ذمہ دار کئی پولیس اہلکار خود جرائم میں ملوث پائے گئے۔ اغوا، بھتہ خوری، منشیات فروشی، راہزنی، جنسی زیادتی، تشدد اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے سنگین الزامات میں متعدد پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے، کئی گرفتار اور بعض برطرف کیے گئے۔
وزارتِ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 5 سال کے دوران اسلام آباد پولیس کے 102 اہلکاروں کے خلاف 72 فوجداری مقدمات درج ہوئے۔ ان میں سے 20 اہلکار برخاست، 14 معطل، 12 کی تنخواہیں کم جبکہ 46 کو ناکافی شواہد پر بری کیا گیا۔
کوئٹہ میں پولیس کی خطرناک واردات
رات کا پھیلتا اندھیرا، کوئٹہ کی خنک فضا میں خاموشی کا راج، لیکن اس خاموشی کے پیچھے ایک ایسا شور چھپا تھا جو پورے شہر کو ہلا دینے والا تھا۔
جناح روڈ سے چوری ہونے والی ایک معمولی سی گاڑی جس کے پیچھے عوام کے محافظوں کا بے نقاب چہرہ تھا۔
چند روز پہلے چوری ہونے والی گاڑی اچانک پشین اسٹاپ کی ایک پارکنگ میں مل گئی۔ پولیس کی ٹیم پہنچی، ثبوت اکٹھے کیے اور جیسے جیسے پردے اٹھنے لگے، ایک ایسی حقیقت سامنے آئی جس پر یقین کرنا مشکل تھا کیونکہ چوری کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ خود بجلی گھر تھانے کے ایس ایچ او ملک آصف اور ان کا ڈرائیور محمد حسن کا ہاتھ تھا۔
تحقیقات نے بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا، اس سے پہلے بھی کئی گاڑیاں اسی طرح ’غائب‘ ہوکر وہیں سے ’برآمد‘ ہوتی رہیں۔ پولیس کے اندر ہی چھپے اس نیٹ ورک کا پول اس وقت کھلا جب ماتحت ملازمین نے ہمت کرکے سچ بول دیا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر حکم جاری کیا کہ ایس ایچ او اور ڈرائیور کو فوراً معطل کیا جائے اور گرفتار کرکے حوالات میں بند کردیا جائے، اب ملک آصف اور محمد حسن وہیں قید ہیں، جہاں کبھی وہ دوسروں کو قید کیا کرتے تھے۔
مزید پڑھیے: کیس پراپرٹیز غائب کرنے کے جرم میں 2 پولیس اہلکاروں کو قید و جرمانے کی سزا
جب پولیس کی چوری رینجرز نے پکڑی
کراچی کے علاقے شیریں جناح کالونی میں 76 کلو منشیات برآمدگی کیس نے بھی ایک بار پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کا چہرہ بے نقاب کیا.
سی آئی اے جامشورو کے اہلکاروں نے کوٹری سے مشکوک ٹرک پکڑا جس سے منشیات برآمد ہوئیں، مگر منشیات کم ظاہر کرکے بڑی تعداد میں منشیات پولیس موبائل میں کراچی اسمگل کردی گئی، بعدازاں رینجرز نے کارروائی کرکے وہی منشیات شیریں جناح کالونی سے برآمد کیں۔ تفتیش کے بعد معاملہ عدالت میں گیا اور عدالت نے 5 اہلکاروں کے نام مقدمے سے خارج جبکہ باقی 6 ملزمان کے خلاف معمول کے مطابق ٹرائل جاری رہنے کا حکم دیا۔
اسلام آباد میں گھناؤنے جرم کی روداد
اسلام آباد میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ سامنے آیا جس نے قانون کے محافظوں پر مزید سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ گزشتہ سال انسداد دہشتگردی ڈپارٹمنٹ کے سب انسپکٹر صہیب علی پاشا کو گرفتار کیا گیا، الزام اتنا سنگین تھا کہ سننے والے بھی کانپ اٹھے۔ 2 کم عمر بھکاری بچے جن کی عمر صرف 10 اور 12 سال تھی، انہیں بھیک مانگنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، مگر یہ گرفتاری قانون کی نہیں، درندگی کی نشانی ثابت ہوئی۔
بچوں کے اہلخانہ کے مطابق، سب انسپکٹر نے دونوں معصوموں کو تھانہ شمس کالونی میں 2 دن تک غیر قانونی طور پر قید رکھا۔ ان پر تشدد کیا گیا اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا کہ 16 ستمبر کو کراچی کمپنی کے علاقے سے دونوں بچوں کو حراست میں لیا گیا اور 18 ستمبر کو انہیں ایدھی سینٹر منتقل کردیا گیا لیکن ان 2 دنوں میں جو کچھ ہوا، وہ انصاف کے نظام پر ایک بھیانک داغ بن کر رہ گیا۔ سب انسپکٹر صہیب علی پاشا کے خلاف مقدمہ ابھی زیرِ سماعت ہے۔
ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت
انسپکٹر جنرل پولیس (پنجاب) کا کہنا ہے کہ پولیس عوام کی خدمت کے لیے ہے، اس لیے نہیں کہ ان پر ظلم کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی اہلکار رشوت، اختیارات کے ناجائز استعمال یا کسی بھی قسم کی کرپشن میں ملوث پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور پولیس میں کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث اہلکاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی اور عوام کے اعتماد کو یقینی بنانے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل جاری رہے گا۔ جس پولیس افسر یا اہلکار کے خلاف شکایات موصول ہوتی ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کے ساتھ محکمانہ کارروائی بھی فوری عمل میں لائی جاتی ہے۔
پولیس اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آئی جی پنجاب نے کہا ہے کہ فورس میں کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد پولیس سے منسوب سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی آڈیو پر ترجمان کی وضاحت
ماہرین کی رائے
جامعہ کراچی کے ڈیپارٹمنٹ آف کرمنالوجی کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق پولیس میں کرپشن ادارہ جاتی شکل اختیار کرچکی ہے۔ بھرتی کے دوران رشوت اور سفارش کے باعث افسران عوامی خدمت کے بجائے ذاتی مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ برطانوی دور کا پولیس نظام آج بھی ’کنٹرول‘ کے فلسفے پر قائم ہے، جسے عوامی خدمت کے نظام میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نائمہ کے مطابق پولیس ریفارمز صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی و انتظامی بنیادوں پر بھی ہونی چاہییں۔ شفاف بھرتی، عدالتی نگرانی اور عوامی احتساب کے نظام کے بغیر پولیس پر اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔













