بھارتی سپریم کورٹ میں اس وقت ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب ایک بزرگ شخص نے چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی کی جانب جوتا پھینک دیا۔
جوتا بینچ تک نہ پہنچ سکا اور سیکیورٹی اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مذکورہ شخص کو حراست میں لے لیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی فوج کی درندگی، سرحد پار کرنے والی 8 بکریاں ہلاک، 54 کی ٹانگیں توڑ دیں
عینی شاہدین کے مطابق، چیف جسٹس گوائی نے جیسے ہی دن کے پہلے مقدمے کی سماعت شروع کی، ایک بزرگ شخص نے نعرے لگانے شروع کیے کہ “ھارت ساناتن کی توہین برداشت نہیں کرے گا اور اسی دوران جوتا چیف جسٹس کی طرف اچھال دیا۔
Unprecedented Fascist Act. Lawyer tries to hurls shoe at Dalit Chief Justice of India, Gavai, in Supreme Court –shouting we will not tolerate his legal actions against Sanatan Dharma — High Caste Manuvadi Hinduism!
But CJI says "These Don’t Affect Me".https://t.co/8n6qyL1KGZ— Jawhar Sircar (@jawharsircar) October 6, 2025
تاہم پھینکا گیا جوتا اپنے ہدف تک نہ پہنچ پایا اور فوراً ہی اہلکاروں نے اسے قابو کر لیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، جوتا پھینکنے والے شخص کے پاس وہ سیکیورٹی کارڈ تھا جو سپریم کورٹ میں وکلا اور ان کے معاون عملے کو دیا جاتا ہے، کارڈ پر نام کیشور راکیش درج تھا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق واقعے کی وجوہات کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا ہے اور سیکیورٹی ادارے ملزم سے تفتیش کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی ہٹ دھرمی برقرار: ویمنز ورلڈ کپ کے میچ میں بھی بھارتی کپتان کا پاکستانی کپتان سے ہاتھ ملانے سے گریز
چیف جسٹس گوائی نے واقعے کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے واقعات سے متاثر ہونے والے آخری شخص ہیں لہذا سماعت جاری رکھی جائے۔
انہوں نے عدالتی عملے کو مذکورہ شخص کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرنے کی ہدایت بھی کی۔

معروف قانون دان اندرا جیسنگھ نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں۔
مزید پڑھیں:بھارت نے اگر دوبارہ حملے کی کوشش کی تو اسکور پہلے سے بہتر ہوگا، خواجہ سعد رفیق
ان کے بقول، یہ سپریم کورٹ پر ایک واضح ذات پات پر مبنی حملہ معلوم ہوتا ہے جسے اجتماعی طور پر مسترد کیا جانا چاہیے۔
’چیف جسٹس نے جس وقار کے ساتھ اپنی کارروائی جاری رکھی، وہ قابلِ تعریف ہے۔‘
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب چیف جسٹس گوائی حال ہی میں خجوراہو میں وشنو کے مجسمے کے حوالے سے دیے گئے ایک بیان پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں تھے۔
مزید پڑھیں: ثنا میر اور بھارتی انجم چوپڑا ایک ساتھ، ’کھیل میں نفرت پھیلانے والوں کے لیے یہ پیغام ہے‘
چیف جسٹس نے ایک عوامی مفاد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ’جائیے، خود دیوتا سے کہیں کہ وہ کچھ کریں۔‘

اس بیان کے بعد مذہبی حلقوں نے اسے ’وشنو بھکتوں کے عقیدے کی توہین‘ قرار دیا تھا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے وضاحت کی تھی کہ ان کے الفاظ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، انہوں نے کہا کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ساڑھی کی صنعت بحران کا شکار
اس موقع پر سولیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ سوشل میڈیا ہر بات کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا دیتا ہے۔
’پہلے ہم نیوٹن کا قانون پڑھتے تھے کہ ہر عمل کا برابر ردِعمل ہوتا ہے، مگر اب ہر عمل کا غیر متناسب سوشل میڈیائی ردِعمل ہوتا ہے۔‘
سینیئر وکیل کپل سبل نے بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ روزانہ اس کا سامنا کرتے ہیں، سوشل میڈیا ایک بے لگام گھوڑا ہے، جسے قابو کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔












