وزیراعلیٰ مریم نواز کے بڑھتے بیانات، پیپلز پارٹی پنجاب کا صوبائی حکومت کے ساتھ مزید چلنے سے انکار

منگل 7 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب میں سیلاب متاثرین کو امداد کی فراہمی کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے بیانات پر معافی مانگیں، تاہم مریم نواز واضح کر چکی ہیں کہ وہ معافی نہیں مانگیں گی۔ اس مؤقف سے ن لیگ کے صدر نواز شریف نے بھی اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ مریم نواز سے معافی کا مطالبہ پیپلز پارٹی کی جانب سے غلط ہے۔

اس سیاسی تنازع کے ردِعمل میں پنجاب حکومت نے پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کو دی گئی سیکیورٹی واپس لے لی ہے۔

مزید پڑھیں: عظمیٰ بخاری کی شرجیل میمن پر تنقید، بلاول اور یوسف رضا گیلانی کو معتبر قرار دے دیا

یہ سیکیورٹی انہیں علی حیدر گیلانی کی طالبان سے رہائی کے بعد شہباز شریف کے دورِ حکومت میں 9 سال قبل فراہم کی گئی تھی۔

وی نیوز سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حیدر گیلانی نے کہا کہ اب بات حد سے بڑھ چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ان کی کابینہ بلاول بھٹو پر بے جا تنقید کریں گے تو ہمیں جواب دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ بطور پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی، وہ چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب حکومتی بینچوں سے علیحدہ ہو کر اسمبلی میں بیٹھے۔

مزید پڑھیں: شرجیل میمن اور عظمیٰ بخاری آمنے سامنے آگئے

ان کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے سے چیئرمین بلاول بھٹو کو آگاہ کر دیا گیا ہے، جنہوں نے ہدایت کی ہے کہ یہ معاملہ سی ای سی (سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی) کے اجلاس میں زیرِ غور لایا جائے۔

حیدر گیلانی کے مطابق، سی ای سی کا اجلاس اسی ماہ منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو درپیش دباؤ پر تفصیلی بات کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں کامن ویلتھ کانفرنس کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں، جہاں اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ ان کے بقول، پنجاب اسمبلی میں علیحدگی کے فیصلے پر اسپیکر سے بھی مشاورت کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: ذہنی دباؤ ہے یا جان بوجھ کر پروپیگنڈا کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری کا ندیم افضل چن کے بیان پر ردعمل

پنجاب حکومت کا مؤقف

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی میں حکومتی بینچوں سے الگ ہونا چاہتی ہے تو یہ ان کا پارٹی معاملہ ہے، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما سندھ میں حکومت میں ہیں مگر پنجاب پر بلا جواز تنقید کر رہے ہیں۔ ہم سیلاب متاثرین کی امداد کے معاملے پر پنجاب حکومت کے خلاف انگلی اٹھانے نہیں دیں گے۔

مزید پڑھیں: ’مناظرہ کرنا تھا معاہدہ ہو گیا‘: بلاول بھٹو تنقید کی زد میں 

واضح رہے کہ صدر زرداری نے گزشتہ روز وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر تبادلہ خیال کیا اور وزیرِ داخلہ کو کراچی طلب کرلیا ہے تاکہ صورتحال کا جائزہ لے کر تناؤ کم کرنے کے اقدامات پر مشاورت کی جا سکے۔

یاد رہے کہ یہ کشیدگی اُس وقت شدت اختیار کر گئی جب سیلاب متاثرین کی امداد کے معاملے پر دونوں صوبوں کی حکومتوں نے ایک دوسرے پر تنقید اور الزامات شروع کیے۔

سندھ کے وزیر شرجیل میمن نے الزام عائد کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز وفاقی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جس پر وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق دونوں اتحادی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات وفاقی سطح تک پہنچ چکے ہیں، اور اگر مصالحت نہ ہوئی تو یہ تنازع مرکزی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

نئی دہلی بم دھماکا خود کش تھا، بھارتی حکام کا بمبار کے ساتھی کی گرفتاری کا دعویٰ

ایران میں تاریخی خشک سالی، بارش کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ کا آغاز

پاکستان نے سری لنکا کو تیسرے ون ڈے میں شکست دے کر سیریز میں وائٹ واش کرلیا

پی ٹی آئی کا دور حکومت ملکی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا ، احسن اقبال

جادو ٹونے سے چلنے والی پی ٹی آئی حکومت کی حقیقت پوری دنیا کے سامنے آگئی، مریم نواز

ویڈیو

انتخابات میں شکست: لالو پرساد یادو کی بیٹی نے سیاست اور خاندان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا

غلام علی: بلتستان کی مٹتی دھنوں کا آخری محافظ

2025 ویڈنگ سیزن: 70 کی دہائی کا ونٹیج گلیمر دوبارہ زندہ ہوگیا

کالم / تجزیہ

سارے بچے من کے اچھے

کامنی کوشل، اس دل میں لاہور کی یادوں کا باغ تھا

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں