تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے 10 اکتوبر کو لاہور سے الاقصیٰ مارچ کا آغاز کیا، اس مارچ نے اسلام آباد پہنچ کر امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کرنا تھا اور ایک یادداشت جمع کرانی تھی۔
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مطابق اس مارچ کا مقصد فلسطین کے مظلوم عوام اور غزہ کی صورتحال پر اظہار یکجہتی کرنا تھا۔ تاہم اس مارچ نے پرتشدد شکل اختیار کرلی، جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور متعدد راستے بھی بند ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی احتجاج میں گاڑیاں جلانے کی ویڈیوز وائرل، ’ریاست کو انتشار پسندوں سے سختی سے نمٹنا ہوگا‘
پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران ایک ایس ایچ او شہید جبکہ پولیس اور رینجرز کے 48 اہلکار زخمی ہوئے جن میں 17 اہلکار گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔
پولیس کے مطابق ٹی ایل پی مظاہرین کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 3 کارکنان اور ایک راہ گیر بھی جاں بحق ہوگیا جبکہ 8 شہری زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ شرپسند عناصر نے 40 سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیوں کو بھی آگ لگا کر جلا دیا۔
ذرائع پنجاب حکومت کے مطابق تحریک لیبک پاکستان (ٹی ایل پی) کا یہ مارچ فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں نہیں تھا، بلکہ اپنی ذاتی مفادات کے لیے یہ مارچ کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس احتجاج کے ذریعے حافظ سعد رضوی اپنے اوپر درج مقدمات ختم کروانا چاہتے تھے جو ماضی میں نکالے گئے احتجاج اور دھرنوں کے وقت بنائے گئے، ان مقدمات میں دہشتگردی، فسادات اور تشدد کو ہوا دینے کے حوالے سے دفعات شامل کی گئی تھیں۔
پنجاب حکومت نے حافظ سعد رضوی کے ساتھ باضابط کوئی مذاکرات نہیں کیے لیکن وفاق کے ساتھ ان کی بات چیت چل رہی تھی۔ تحریک لیبک کی قیادت بضد تھی کہ ہمارے مطالبات مانے جائیں اور پنجاب حکومت بھی اس میں شامل ہو۔
جب حافظ سعد رضوی نے ریاست کو چیلنج کیا تو اسں کے بعد پنجاب پولیس نے دیگر فورسز کے ساتھ مل کر مریدکے میں آپریشن کیا اور مظاہرین کو منتشر کردیا۔
لاہور میں حافظ سعد رضوی پر کتنے مقدمات درج ہیں؟
حافظ سعد حسین رضوی تحریک لبیک پاکستان کے بانی خادم حسین رضوی (مرحوم) کے بیٹے اور موجودہ امیر ہیں، مارچ کے دوران سعد رضوی کے اہل خانہ کو بھی ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا، لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر حافظ سعد رضوی کے اہل خانہ کو رہا کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق جب حافظ سعد رضوی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے۔
ذرائع کے مطابق احتجاجی مظاہرین کے خلاف اب تک 20 مقدمات درج کیے جاچکے ہیں، زیادہ مقدمات پولیس کی مدعیت میں درج کیے گئے ہیں۔
جن تھانوں میں مقدمات درج کیے گئے ہیں، ان میں اسلام پورہ، نیو انار کلی، بھاٹی گیٹ، شفیق آباد گوالمنڈی، بادامی باغ، شاہدرہ، شاہدرہ ٹاؤن، نواں کوٹ اور مریدکے سٹی تھانہ شامل ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق ان مقدمات میں دہشتگردی، قتل، اقدام قتل، اغوا، ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ سمیت دیگر سنگین دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کے مطابق مرید کے احتجاج کے دوران سوشل میڈیا پر انتشار پھیلانے والے افراد کے خلاف بھی کریک ڈاؤن جاری ہے۔ مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن کے دوران 39 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
شرپسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن لاہور، قصور، کامونکی، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں کیا گیا جس کے بعد مزید 87 شرپسندوں کے واٹس ایپ اور فیس بک اکاؤنٹس ٹریس کر لیے گئے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق شرپسندوں کی گرفتاری کے لیے کریک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ رات سے شروع ہوگا۔ 200 سے زیادہ شرپسندوں کی فہرست مرتب کی جا چکی ہے، اور گرفتاریوں کا عمل مکمل کرکے قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ٹی ایل پی کارکنان کے قانون نفاذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے
پولیس ذرائع کے مطابق مریدکے آپریشن سے پہلے ابتدائی طور پر انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور احتجاج کو وہاں سے منتقل کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم مذاکرات کے دوران احتجاج کی قیادت نے ہجوم کو اکسانا جاری رکھا۔
اس دوران ہجوم نے پتھراؤ، کیلوں والے ڈنڈوں کا استعمال اور پیٹرول بموں سمیت تشدد آمیز ہتھکنڈے اپنائے، متعدد پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھینا گیا اور اسی چھینے گئے اسلحہ سے فائرنگ بھی کی گئی، پوسٹ مارٹم رپورٹس اور پولیس کے ابتدائی معائنے کے مطابق فائرنگ میں استعمال گولیاں اسی چھینے گئے اسلحے کی تھیں۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے بڑے سانحے سے بچنے کی کوشش میں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا، مظاہرین مزید مشتعل ہوئے اور منظم حملے شروع کردیے، مظاہرین نے پولیس اہلکاروں اور گاڑیوں پر حملے کیے، کم از کم 40 سرکاری و نجی گاڑیاں جلا دی گئیں اور کئی دکانیں بھی نذرِ آتش ہوئیں۔
پولیس کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے متعدد ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ سعد رضوی اور چند دیگر رہنما موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
پولیس نے بتایا کہ ملزمان کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے، یہ کارروائی منظم تشدد کا حصہ تھی جس میں قیادت نے ہجوم کو اکسانے کا کردار ادا کیا اور پھر فرار ہو کر شہریوں اور ریاست کو خطرے میں ڈال دیا، ہتھیار چھیننا، پیٹرول بم اور گاڑیاں جلانا کسی بھی طرح پرامن احتجاج نہیں کہلاتا اور ایسے عناصر کو قانون کے مطابق جواب دہ ٹھہرایا جائے گا۔
ماضی میں تحریک لیبک پاکستان کب کب احتجاج کرتی رہی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مارچ پاکستان کی مذہبی سیاست کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مذہبی جذبات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کے انتہاپسندوں کی پولیس کو یرغمال بنانے کی ویڈیو وائرل،’یہ کھلی دہشتگردی ہے‘
تحریک لبیک نے ماضی میں 2017، 2018 اور 2021 میں احتجاج کیا، اور کسی حد تک اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب بھی رہی۔ تاہم اس بار صورتحال پیچیدہ ہے۔ حافظ سعد رضوی اس وقت فرار ہیں، حکومت کی جانب سے مزید اقدامات کا اعلان ممکن ہے، جبکہ جماعت نے ’لبیک یا اقصیٰ‘ کا نعرہ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔














