پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے افغانستان کے ساتھ طے پانے والی 48 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی پر شک ظاہر کیا اور کابل پر الزام عائد کیا کہ وہ بھارت کے ’پراکسی وار‘ میں ملوث ہے، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد صورتِ حال کشیدہ ہے۔
48 گھنٹے کی جنگ بندی اور اس کے پس منظر
پاکستان اور افغان طالبان انتظامیہ نے بدھ کو 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا، جو اس وقت سامنے آئی جب پاکستانی فورسز نے افغان طالبان کے کچھ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، خاص طور پر قندهار کے علاقوں میں کیے گئے حملوں کو پاکستانی سرکاری میڈیا نے ’پریسیشن اسٹرائیکس‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:افغان طالبان کا چمن میں پاک افغان دوستی گیٹ کو تباہ کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈا بےنقاب
اس عارضی جنگ بندی کا مقصد کشیدگی کو کم کرنا اور مذاکرات کے لیے راستہ ہموار کرنا بتایا گیا ہے۔
خواجہ آصف کے الزامات اور جنگ بندی پر شک
وزیرِ دفاع نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اُنہیں شبہ ہے کہ یہ جنگ بندی دیرپا ثابت نہیں ہوگی کیونکہ ان کے بقول افغان فیصلے اس وقت ’دہلی کے تعاون‘ سے کیے جا رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے استفسار کیا کہ افغان وزیرِ خارجہ کے بھارت کے دورے کے بعد کابل کس منصوبے کے ساتھ واپس آیا ہے، اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کابل اس وقت دہلی کا پراکسی وار لڑ رہا ہے۔
سرحدی جھڑپوں کا انسانی اور علاقائی ردِعمل
حالیہ دنوں میں سرحد کے دونوں جانب ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد جان سے گئے اور علاقے میں انسانی ہلاکتیں اور بے دخلی کی اطلاعات سامنے آئیں۔
یہ بھی پڑھیں:کاکڑ قبیلے کا افغان جارحیت کے خلاف پاک فوج سے اظہارِ یکجہتی
دونوں فریق ایک دوسرے پر حملوں اور عسکریت پسند حامیوں کے ٹھکانے فراہم کرنے کے الزامات لگا چکے ہیں، جنہوں نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔ علاقائی طاقتوں نے بھی اس کی روک تھام کے لیے ثالثی کی کوششیں کیں۔
اسلام آباد کا موقف اور ممکنہ جوابی کارروائی
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کسی تعمیری مذاکراتی عمل کا مثبت جواب دے گا، مگر وہ اپنی سرحدوں پر ہونے والے حملوں اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہماری صلاحیت موجود ہے اور اگر وہ (دوسری جانب) اشتعال کو بڑھائیں گے تو ہم، ان شاء اللہ، جوابی کارروائی کریں گے۔
کابل اور نئی دہلی کی جانب سے موقف کا فوری ردِعمل نہیں آیا
خواجہ آصف کے الزامات کے فوری بعد نہ کابل اور نہ ہی نئی دہلی کی طرف سے کوئی فوری باضابطہ جواب سامنے آیا۔

دونوں دارالحکومتوں کے بیانات یا ردِعمل آنے پر صورتحال میں مزید وضاحت متوقع ہے، جبکہ بین الاقوامی برادری کشیدگی کم کرنے کے لیے ثالثی اور مذاکرات کی حمایت کر رہی ہے۔














