چُندا ویلی اسکردو، چٹانوں کا طلسم اور جنت نظیر وادی

پیر 20 اکتوبر 2025
author image

عبید الرحمان عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چُندا ویلی (Chunda Valley) سکردو (بلتستان) کی سب سے دلکش وادیوں میں شمار ہوتی ہے۔ سطحِ سمندر سے تقریباً 2600 میٹر بلند یہ وادی برف پوش پہاڑوں، سرسبز چراگاہوں، پھلوں کے باغات اور منفرد چٹانوں کی وجہ سے سیاحوں کے لیے غیر معمولی کشش رکھتی ہے۔

یہاں کا حسن محض فطری مناظر تک محدود نہیں، بلکہ یہ وادی قدیم تاریخ، عجیب و غریب پتھروں اور ماحولیاتی منصوبوں کی وجہ سے بھی ایک زندہ تحقیقی اور سیاحتی تجربہ پیش کرتی ہے۔

وادی تک رسائی

چُندا ویلی تک پہنچنے کے لیے سیاح اسکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے شہر کی سمت بائیں طرف مڑتے ہیں، پھر گمبہ بازار کے بعد دائیں ہاتھ پر CMH جانے والی سڑک پر تقریباً 35 سے 40 منٹ کی مسافت طے کر کے وادی تک پہنچ سکتے ہیں۔

یہ راستہ کچا ہے اور بعض جگہوں پر اتنا تنگ کہ 2 گاڑیوں کا گزر مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم، جیسے ہی مسافر وادی کے دہانے پر پہنچتے ہیں تو  واان سے سیدھے ہاتھ فونگ تھنگ نامی سپاٹ اجالا ہے جاپان سے ایک طرف چندہ گاوں کانظارہ اور دوسری طرف اردگرد کے فلک بوس پہاڑ، شگر ویلی، ایئرپورٹ دریا سندھ  اور اسکردو شہر کا نظارہ سیاحوں کو مسحور کر دیتا ہے۔

چٹانوں کی دنیا  ڈائناسور، گھوڑے اور قدرتی شیلٹرز

چُندا ویلی کی سب سے انوکھی پہچان اس کی چٹانیں ہیں۔ یہ بعض جگہ ڈائناسور یا گھوڑوں جیسی اشکال اختیار کیے ہوئے ہیں، کہیں یہ قدرتی شیلٹرز کا منظر پیش کرتی ہیں اور کہیں ستونوں یا مجسموں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے رنگ سرخی مائل، خاکستری، پیلے اور نیلے ہیں جو ہر زاویے سے ایک نئی کہانی سناتے ہیں۔

ایک سیاح نے تبصرہ کیا: ’میں نے دنیا کے کئی مقامات دیکھے ہیں، مگر ایسی چٹانیں کہیں نہیں دیکھیں۔ یہ یوں لگتی ہیں جیسے فطرت نے خود ایک عجائب گھر بنایا ہو‘۔

ایک مقامی بزرگ کا کہنا ہے: ’یہ پتھر ہمارے لیے صرف خوبصورتی نہیں بلکہ ہماری تاریخ اور کہانیاں ہیں۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہاں کے ہر پتھر میں ایک راز چھپا ہے‘۔

قدیم سمندر اور چُندا بطور بندرگاہ

قدیم روایات کے مطابق ہزاروں سال پہلے پورا بلتستان سمندر کے نیچے تھا اور لوگ کشتیوں پر سفر کرتے تھے۔ چُندا اس وقت ایک بڑی بندرگاہ سمجھی جاتی تھی جہاں سے مختلف دیہات تک کشتیاں جاتی تھیں۔

آج بھی وادی میں ایک بڑی چٹان موجود ہے جسے مقامی لوگ ’کشتی باندھنے کی جگہ‘ قرار دیتے ہیں۔ غلام نبی نامی مقامی افسر کے مطابق: ’یہ وہی مقام ہے جہاں لوگ اپنی کشتیاں باندھتے تھے۔ یہ داستان ہمارے بزرگوں سے نسل در نسل منتقل ہوئی ہے‘۔

یہ کہانی اگرچہ سائنسی طور پر مکمل ثابت نہیں ہوئی، مگر وادی کی جاذبیت کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔

جیولوجیکل اہمیت اور سیاحتی امکانات

ماہرین کے مطابق یہ خطہ کبھی قدیم سمندر کا حصہ رہا، جس کا ثبوت یہاں ملنے والے فوسلز اور معدنی ذرات ہیں۔ دنیا میں ’جیولوجیکل ٹورازم‘ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔

یورپ اور امریکہ میں ایسے مقامات جہاں چٹانوں کے انوکھے ڈھانچے ہوں، لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ چُندا ویلی میں بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہاں ’چُندا جیولوجیکل پارک‘ قائم کیا جائے، Rock Viewing Points بنائے جائیں اور تربیت یافتہ گائیڈز سیاحوں کو چٹانوں اور فوسلز کی سیر کرائیں۔

ماحولیات اور قدرتی آفات سے تحفظ

چُندا ویلی ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بھی ایک مثال ہے۔ 2011 سے 2014 تک سوئس ڈویلپمنٹ ایجنسی (SDC) اور عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے تعاون سے یہاں ایک منصوبہ مکمل کیا گیا۔ اس کے تحت:

50,000 حفاظتی بیریئرز لگائے گئے۔200,000 درخت لگائے گئے۔

مقامی مرد و خواتین کو تربیت دی گئی

اس منصوبے نے نہ صرف زرعی زمین اور پلوں کو محفوظ بنایا بلکہ مقامی بستیوں کو بھی قدرتی آفات سے بچانے میں کردار ادا کیا۔ اس طرح چُندا ایک ’ماڈل پروجیکٹ‘ کے طور پر سامنے آیا جسے ملک کے دیگر حصوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔

سماجی و معاشی امکانات

اگر چُندا ویلی کو سیاحتی برانڈ کے طور پر اجاگر کیا جائے تو یہ وادی نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کی معیشت کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتی ہے۔ مقامی لوگ گائیڈز، ہوٹلرز اور ہنرمند بن کر روزگار حاصل کر سکتے ہیں جبکہ حکومت زرمبادلہ کما سکتی ہے۔

مقامی گائیڈ عبدالرحمان چوپا کے مطابق: ’چُندا ویلی صرف ایک سیاحتی جنت نہیں، بلکہ ہماری تاریخ اور مستقبل دونوں کی ضمانت ہے۔ اگر حکومت تھوڑی سی توجہ دے تو یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے‘۔

چُندا ویلی سکردو کی سب سے منفرد اور حیرت انگیز وادی ہے۔ اس کی چٹانیں صرف پتھر نہیں بلکہ قدرتی فن پارے اور قدیم تاریخ کی علامت ہیں۔ یہاں کی روایات، جیولوجیکل شواہد اور ماحولیاتی منصوبے اسے ایک زندہ تجربہ بنا دیتے ہیں۔

اگر  گلگت بلتستان حکومت اور نجی ادارے مل کر اس وادی کو فروغ دیں تو چُندا نہ صرف ایک عالمی سیاحتی مرکز بن سکتا ہے بلکہ مقامی معیشت اور سائنسی تحقیق کے لیے بھی سنگِ میل ثابت ہو گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

مکہ مدینہ ہائی وے پر بس حادثے میں 42 بھارتی عمرہ زائرین جاں بحق

غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا

الیکشن کمیشن کا اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان

قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے گوگل ڈیپ مائنڈ مددگار، جانیں کیسے؟

سہ ملکی سیریز ٹرافی کی راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں رونمائی کردی گئی

ویڈیو

جنرل فیض حمید کیس کا فیصلہ کب آئےگا، اور کتنی سزا کا امکان ہے؟

حکومت سیاسی درجہ حرارت میں کمی پر متفق، پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ جلد ہوگا، فواد چوہدری

گھر کے کچن سے فوڈ برانڈ تک کا سفر: چکوال کے جوڑے نے محنت سے مثال قائم کردی

کالم / تجزیہ

ایک بدزبان محبوب، بال ٹھاکرے

جنات، سیاست اور ریاست

سارے بچے من کے اچھے