نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینیئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 2025 کے دوران سائبر جرائم میں 35 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس میں واٹس ایپ ہیکنگ کے کیسز بھی نمایاں طور پر بڑھے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق این سی سی آئی اے کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ارسلان منظور نے پاکستان میں ڈیجیٹل خواندگی کی شدید کمی سائبر کرائمز کے فروغ کی بنیادی وجہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اور ہالینڈ کا پاکستان میں فعال سائبر جرائم میں ملوث نیٹ ورک ’تباہ‘ کرنے کا دعویٰ
’پاکستان میں لوگ اب بھی ہیکرز کو واٹس ایپ پر موصول ہونے والے ون ٹائم پاس ورڈ شیئر کر دیتے ہیں، جس سے وہ خود ہی اپنے اکاؤنٹس ہیک کروانے کا راستہ کھول دیتے ہیں۔‘
این سی سی آئی اے کے اعدادوشمار کے مطابق زیادہ تر سائبر جرائم کا آغاز جنوبی پنجاب سے ہو رہا ہے، جب کہ کچھ کیسز ملک سے باہر کے نیٹ ورکس سے بھی جڑے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کو سائبر کرائمز کی کتنے لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں؟
انہوں نے کہا کہ پالیسی ساز عام طور پر نوجوان نسل کو ذہن میں رکھ کر پالیسیاں بنا رہے ہیں، حالانکہ ڈیجیٹل فراڈز ہر عمر کے افراد کو متاثر کر رہے ہیں۔
’سائبر کرائمز میں 2025 کے دوران اب تک 35 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، البتہ یہ شرح سال کے اختتام تک مختلف ہو سکتی ہے۔‘
اعداد و شمار اور عالمی تناظر
گزشتہ سال ویزا کی رپورٹ کے مطابق، ہر دوسرا پاکستانی ڈیجیٹل فراڈ کا شکار ہوا، جب کہ ہر پانچواں شہری متعدد بار آن لائن فراڈ کا سامنا کر چکا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کی سالانہ انتظامی رپورٹ 2024 کے مطابق، 73,000 سے زائد شکایات درج ہوئیں لیکن ان میں سے صرف 1,604 کیسز رجسٹر کیے گئے، جن میں تقریباً آدھی شکایات مالی فراڈز سے متعلق تھیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کا عالمی سائبر سیکیورٹی انڈیکس میں درجہ 2021 کے 79ویں سے 2024 میں 46ویں نمبر پر آگیا ہے، یعنی بہتری کے باوجود جرائم میں اضافہ جاری ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانیوں کے ذاتی ڈیٹا کی حفاظت اور سائبر جرائم سے متعلق بلز میں خاص کیا ہے؟
این سی سی آئی اے اہلکاروں کے مطابق، یہ درجہ بندی جرائم کی تعداد نہیں بلکہ تکنیکی، قانونی اور ادارہ جاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر کی گئی ہے، اس لیے بڑھتے جرائم کا اس سے براہِ راست تعلق نہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ڈیجیٹل خواندگی کے فروغ میں حکومت، سول سوسائٹی، اسکولوں اور کالجوں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا، اور نصاب میں ڈیجیٹل آگاہی شامل کی جانی چاہیے۔
شکایات اور متاثرین کی صورتحال
این سی سی آئی اے کے ایک اور عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 2025 میں صرف کراچی سے اب تک 29,000 سے زائد شکایات موصول ہو چکی ہیں، جن میں مالی جرائم، ہراسانی اور فحاشی سے متعلق کیسز شامل ہیں۔
یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
اے آئی اور نئے فراڈ کے طریقے
ویزا کے کنٹری منیجر عمر ایس خان نے بتایا کہ اب مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کرتے ہوئے جعلی آوازیں تیار کی جا رہی ہیں جو کمپنیوں کے افسران یا قریبی رشتہ داروں کی آواز سے مشابہ ہوتی ہیں۔
’یہ اسکیمز اکثر ہنگامی صورتحال کا بہانہ بناتی ہیں، جیسے فوری پیسوں کی ضرورت یا انعام جیتنے کا جھانسہ دے کر لوگوں کو دھوکا دیتی ہیں۔‘
مزید پڑھیں: سائبر کرائم ترمیمی بل کا مسودہ تیار، فیک نیوز دینے والے کو کتنی سزا اور جرمانہ ہوگا؟
ویزا کے مطابق، 2024 میں عالمی سطح پر 203 ارب ڈالر مالیت کے مالی فراڈ کی کوششوں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی سیکیورٹی سسٹم نے ناکام بنایا، اسی طرح کمپنی ہر ماہ 90 ملین ایپلیکیشن پروگرامنگ انٹرفیس حملے، 340 ملین بوٹ اٹیکس اور 11 ملین فشنگ کوششوں کو بلاک کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کے اداروں کی کارکردگی بہتر ہونے کے باوجود عوامی آگاہی کی کمی سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔
سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ڈیجیٹل خواندگی کو قومی نصاب اور عوامی تربیتی پروگراموں کا حصہ بنایا جائے تاکہ شہری خود کو اور اپنے ڈیٹا کو محفوظ رکھ سکیں۔













