ایک حالیہ ارضیاتی مطالعے کے مطابق، سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ ایران اور پاکستان کی سرحد کے قریب واقع گزشتہ 7 لاکھ سال سے خاموش ’تفتان‘ آتش فشاں دوبارہ پھٹ سکتا ہے۔
جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ سویا ہوا آتش فشاں دوبارہ سرگرمی کے آثار دکھا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غیر فعال آتش فشاں کے دھانے پر آباد سعودی گاؤں میں خاص کیا ہے؟
جولائی 2023 سے مئی 2024 کے دوران آتش فشاں کی چوٹی تقریباً 3.5 انچ بلند ہوئی، جو زیرِ زمین گیس کے دباؤ میں خطرناک اضافے کی علامت ہے۔
This Volcano Was Dormant for 700,000 Years—It Might Be Waking Up https://t.co/BiH1AWXhPn
— Popular Mechanics (@PopMech) October 20, 2025
آتش فشاں کے سینیئر ماہر پابلو گونزالیز اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ دباؤ بالآخر کسی نہ کسی طرح خارج ہوگا، چاہے اس کا اظہار شدید انداز میں ہو یا نسبتاً خاموشی سے۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ فی الحال کسی فوری دھماکے کا خطرہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: انٹارکٹیکا کا سونا اُگلتا آتش فشاں، حقیقت یا فسانہ؟
پابلو گونزالیز کے مطابق، آتش فشاں کے اندر جمع ہونے والا گیس کا دباؤ کسی وقت باہر نکلے گا، یا زور دار انداز میں یا آہستہ۔
’یہ تحقیق عوام میں خوف پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ متعلقہ حکام کے لیے ایک انتباہ ہے کہ وہ اس پر توجہ دیں اور وسائل مختص کریں۔‘
مزید پڑھیں:خاتون تصویر بناتے ہوئے آتش فشاں میں گر کر ہلاک
مقامی لوگوں نے بھی گزشتہ سال سے آتش فشانی سرگرمیوں کے آثار محسوس کیے، جن میں گیسوں کے اخراج اور ایک مخصوص بُو کا پھیلاؤ شامل ہے، جو آتش فشاں کی چوٹی سے 30 میل تک محسوس کی جا سکتی ہے۔
تفتان جنوب مشرقی ایران میں ایک سطحی آتش فشاں ہے، جو عربی اور یوریشیائی پلیٹوں کے تصادم سے بننے والی پہاڑی پٹی میں واقع ہے۔

ارضیاتی ماہرین کے مطابق، اس آتش فشاں میں گرم چشمے اور گندھک کے دہانے فعال ہیں، اگرچہ حالیہ تاریخ میں اس کا کوئی بڑا دھماکا نہیں ہوا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ علاقے کی دشوار رسائی کے باوجود وہ سیٹلائٹ تصاویر اور مسلسل تحقیق کے ذریعے اس 12,927 فٹ بلند آتش فشاں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے حکام سے اس کی قریبی نگرانی کے لیے وسائل مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: کیلیفورنیا: ایسی آبشار جو شعلے اگلتے آتش فشاں کا منظر پیش کرتی ہے
تحقیقی رپورٹ کے مطابق، آتش فشاں کی حالیہ بلندی میں اضافہ ممکنہ طور پر زیرِ زمین ہائیڈروتھرمل نظام میں تبدیلیوں اور گیس یا لاوے کی حرکت کی وجہ سے ہے۔
تحقیقات اب بھی جاری ہیں اور سائنس دان دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر اس آتش فشاں کی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔














