فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی کے نئے علاقوں میں یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب ایک روز قبل مصر نے ماہرین کی ٹیم اور بھاری مشینری غزہ بھیجی تاکہ لاشوں کی تلاش میں مدد دی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں حملے کے لیے کسی سے اجازت نہیں چاہیے، نیتن یاہو کے بیان نے امن معاہدہ خطرے میں ڈال دیا
امریکی ثالثی میں 10 اکتوبر کو طے پانے والی جنگ بندی کے تحت حماس پر لازم ہے کہ وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی باقیات جلد از جلد واپس کرے۔ معاہدے کے مطابق اسرائیل ہر ایک یرغمالی کی لاش کے بدلے 15 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کرے گا۔
اب تک اسرائیل 195 فلسطینیوں کی لاشیں حماس کے حوالے کر چکا ہے، جب کہ حماس نے 18 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس کی ہیں۔ تاہم گزشتہ 5 دنوں سے اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
غزہ میں مصری ٹیم کی موجودگی
دو مصری حکام کے مطابق ہفتے کے روز ایک مصری ٹیم بھاری مشینری کے ساتھ غزہ میں داخل ہوئی تاکہ یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش میں مدد فراہم کی جا سکے۔
یہ اقدام جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کی کوششوں کا حصہ ہے۔ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہیں تھی۔
حماس کے غزہ میں سربراہ خلیل الحیہ نے اتوار کی صبح جاری ایک بیان میں کہاکہ تنظیم نے ان 13 یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش نئے علاقوں میں شروع کردی ہے جن کی باقیات اب تک غزہ میں موجود ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حماس کو وارننگ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز خبردار کیاکہ وہ اس معاملے پر انتہائی قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ حماس اگلے 48 گھنٹوں کے اندر مزید لاشیں واپس کرے گی۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ کچھ لاشوں تک پہنچنا واقعی مشکل ہے، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جنہیں فوری طور پر واپس کیا جا سکتا ہے، مگر کسی وجہ سے ایسا نہیں کیا جا رہا۔
لاشیں ملبے کے نیچے ہونے کی وجہ سے مشکلات ہیں، خلیل الحیہ
خلیل الحیہ جو حماس کے مرکزی مذاکرات کار بھی ہیں، نے گزشتہ ہفتے ایک مصری میڈیا ادارے سے گفتگو میں کہا تھا کہ لاشوں کی بازیابی میں مشکلات اس لیے درپیش ہیں کہ اسرائیلی بمباری نے کئی مقامات کو زمین بوس کردیا ہے اور لاشیں ملبے کے نیچے دفن ہیں۔
ہفتے کی رات اسرائیلی فورسز نے غزہ کے وسطی علاقے نصیرات میں پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جو ایک ہفتے میں دوسرا حملہ تھا۔ عودہ اسپتال کے مطابق وہاں 4 زخمیوں کو منتقل کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے اسلامی جہاد تنظیم کے ان ارکان کو نشانہ بنایا جو اسرائیلی افواج پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، تاہم اسلامی جہاد نے اس دعوے کی تردید کی اور کہاکہ وہ کسی حملے کی تیاری نہیں کر رہے تھے۔
حماس نے اسرائیلی حملے کو جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور الزام لگایا کہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو امریکی صدر ٹرمپ کی جنگ ختم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔
یہ وہی علاقہ ہے جسے اسرائیل نے 19 اکتوبر کو بھی نشانہ بنایا تھا جب اس نے الزام لگایا تھا کہ حماس کے جنگجوؤں نے 2 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں
اسی روز اسرائیل نے غزہ بھر میں درجنوں فضائی حملے کیے جن میں غزہ کی صحت حکام کے مطابق کم از کم 36 فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ واقعہ جنگ بندی کے بعد اب تک کا سب سے سنگین چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔
نصیرات پر ہفتے کا حملہ اس وقت ہوا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اسرائیل کے دورے کے بعد روانہ ہو رہے تھے۔ وہ ان اعلیٰ امریکی حکام میں سے ایک ہیں جو حالیہ دنوں میں اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں تاکہ شہری و عسکری رابطہ مرکز کے قیام میں پیش رفت کا جائزہ لیا جا سکے، جو جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی کر رہا ہے۔
اسی ہفتے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھی اسرائیل میں موجود تھے، جبکہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے یرغمالیوں کی واپسی کی شرط رکھ لی
روبیو نے قطر روانگی سے قبل ایک بیان میں کہاکہ اسرائیل، امریکا اور دیگر ثالث ممالک جنگ بندی کے استحکام کے لیے باہمی انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کررہے ہیں، جس سے گزشتہ ہفتے ایک ممکنہ حملے کو روکنے میں مدد ملی۔
اس وقت قریباً 200 امریکی فوجی اسرائیلی افواج اور دیگر ممالک کے نمائندوں کے ساتھ رابطہ مرکز میں تعینات ہیں، جہاں غزہ کی بحالی اور استحکام کے منصوبے پر کام جاری ہے۔














