چین کی سرکاری دفاعی کمپنی نورنکو نے ‘ڈیپ سیک’ مصنوعی ذہانت سے چلنے والی خودکار جنگی گاڑی متعارف کرائی ہے، جو 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے معاونت فراہم کر سکتی ہے۔
یہ پیش رفت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بیجنگ جدید ہتھیاروں میں امریکی برتری کا مقابلہ کرنے کے لیے اے آئی کو تیزی سے اپنارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ڈیپ فیک سے ڈیٹا چوری تک، اے آئی سے ذاتی تصاویر بنوانا کتنا خطرناک؟
رائٹرز کی تحقیق کے مطابق، چین کی فوج (PLA) اور اس سے منسلک ادارے ‘ڈیپ سیک’ ماڈلز کو جنگی منصوبہ بندی، خودکار ہدف شناخت، اور ڈرون و روبوٹ کتوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ ان نظاموں سے فوجی فیصلوں کا عمل چند گھنٹوں سے کم ہو کر چند سیکنڈز میں ممکن ہو گیا ہے۔
دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی فوج امریکی پابندیوں کے باوجود این ویڈیا (Nvidia) کے اے-100 چپس استعمال کر رہی ہے، جبکہ ساتھ ہی ہواوے کے تیارکردہ ‘ایسینڈ’ چپس پر انحصار بڑھایا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق، ڈیپ سیک کی مقبولیت بیجنگ کے اس ہدف کو ظاہر کرتی ہے جسے وہ ‘الگورتھمک خودمختاری’ کہتا ہے یعنی مغربی ٹیکنالوجی سے انحصار کم کر کے اپنے ڈیجیٹل ڈھانچے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا۔
یہ بھی پڑھیے: کیا چینی ایپ ڈیپ سیک مصنوعی ذہانت کی دنیا میں انقلاب ہے؟
چینی دفاعی قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہتھیاروں پر انسانی کنٹرول برقرار رکھے گی، تاہم خودکار ڈرونز اور روبوٹس کے استعمال میں تیزی عالمی سطح پر تنقید کو بھی دعوت دے رہی ہے۔














