پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ کے شہر استنبول میں ہونے والے مذاکرات کا چوتھا دورہ جاری ہے، تاہم ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے تین سیشنز میں مجموعی طور پر 48 گھنٹے طویل گفت و شنید مکمل ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان کشیدگی: پاکستانی وفد کے افغان طالبان سے دوحہ میں مذاکرات آج ہوں گے، دفتر خارجہ
ذرائع کے مطابق کم از کم تین مواقع پر معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے، مگر ہر بار افغان وفد نے آخری لمحے پر پسپائی اختیار کر لی۔
مذاکرات میں شریک ذرائع نے بتایا کہ افغان وفد اندرونی دھڑوں، قندھار، کابل اور حقانی گروپ کی باہمی چپقلش کا شکار ہے، جس کی وجہ سے فیصلہ سازی میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔
مذاکرات کی میزبانی کرنے والے ثالثوں کے مطابق صورتحال اب ان پر بھی واضح ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور ترکیہ نے تمام تر مشکلات کے باوجود مذاکراتی عمل کو ایک اور موقع دینے پر اتفاق کیا ہے تاکہ معاملات بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکیں۔
مذاکرات کے پہلے ادوار میں کب کیا ہوا؟
پاک افغان مذاکرات کا آغاز رواں ماہ قطر میں 18 اکتوبر کو ہوا تھا، جہاں دونوں ممالک نے سرحدی جھڑپوں کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
بعدازاں 25 اکتوبر کو استنبول میں دوسرا دور ہوا، جس میں پاکستان نے افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: استنبول مذاکرات میں پیشرفت نہ ہو سکی، دہشتگردوں کی سرپرستی منظور نہیں، پاکستان نے افغان طالبان پر واضح کردیا
افغان وفد نے ٹی ٹی پی کو سرحد سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کی، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔ اگرچہ مذاکرات میں بارہا تعطل آیا، لیکن فریقین نے رابطہ برقرار رکھا۔














