پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما سابق وفاقی وزیرِ قانون سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ اپریل 2010 میں 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین کی روح کو بحال کردیا گیا تھا اور اس کے بعد ہمیں آئین میں مزید ترمیم کی ضرورت نہیں تھی لیکن پارٹی پالیسی سے ہٹ کر میری ذاتی رائے میں کچھ معاملات ایسے تھے جو مرکز کے پاس ہی ہونے چاہیبں تھے۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں 7 بڑے پروپیگنڈے اور ان کے برعکس حقائق
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بہبودِ آبادی ایک ایسا معاملہ تھا جو مرکز کے پاس ہی رہنا چاہیے تھا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 27ویں ترمیم، 18ویں ترمیم اور 1973 کے آئین کی روح کو ختم کردے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی خودمختاری اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے جو صوبوں کو جو مخصوص رقومات دی جاتی ہیں اُن پر پابندی ہٹائے گی جس سے صوبائی خودمختاری میں کمی آئے گی اور ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی بھی اِس معاملے پر حمایت نہیں کرے گی۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ میں افتخار چوہدری دور سے ججز کے ساتھ آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں اُنہیں بتاتا تھا کہ عدالتی اختیارات کا بے دریغ استعمال عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی کا رستہ ہموار کرے گا۔ جب پارلیمنٹ کو موقع مِلا تو اُنہوں نے ججوں کی تعیّناتی کو بھی کنٹرول کرلیا اور ایک علیحدہ عدالت بھی بنا دی۔ اُنہوں نے کہا کہ عمران خان 27 ویں ترمیم کی مخالفت کا ہی مشورہ دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کبھی کوئی بات چیت ہوئی نہ ہو رہی ہے
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکثر اس طرح کی افواہیں اُڑتی رہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ براہِ راست پوچھا ہے لیکن خان صاحب کہتے ہیں کہ میں جیل میں بیٹھ کر کس سے بات کروں گا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان میں ججوں کے تبادلوں کی ضرورت کیوں؟
ہاں! ایک بار اُنہوں نے کہا تھا کہ بالواسطہ طریقے سے آفرز کی جا رہی ہیں کہ آپ کو بنی گالہ منتقل کر دیں یا آپ باہر چلے جائیں لیکن وہ اُنہوں نے کھلے عام مسترد کر دی تھیں۔ خان صاحب کے الفاظ ہیں کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن یا حکومت اُن سے مذاکرات کیوں کرے گی کیونکہ اُن کو پتا ہے کہ اگر میں باہر آ گیا تو اِن کی حکومت ایک دن بھی نہیں چلے گی۔
26ویں آئینی ترمیم کا مقصد عدلیہ کو کنٹرول کرنا تھا
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کا مقصد صرف عدلیہ کو کنٹرول کرنا تھا خاص طور سپریم کورٹ کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ سپریم کورٹ کو ایک تو ججوں کی تعیّناتیوں کے ذریعے دوسرا ججوں کی ٹرانسفر کے ذریعے سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ تیسرا سپریم کورٹ کے پاس ایک حق تھا جو انسانی حقوق، سوموٹو، آئینی معاملات میں فیصلے کرنا۔ اس کے بارے میں 26ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا کہ یہ ہم الگ کر کے کسی خاص عدالت کو دے رہے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ڈرافٹ میں آئینی عدالت کا ذکر تھا جس کو جمیعت علمائے اِسلام کی مخالفت کی وجہ سے آئینی بینچ میں تبدیل کر دیا گیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے ججوں کی ٹرانسفر اور آئینی بینچز بنا کر عدلیہ کو کنٹرول کرلیا۔
27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے عدلیہ کی باقی ماندہ آزادی بھی واپس لی جارہی ہے
بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں کہ ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج تو کیا ہوا ہے، لیکن ہم چاہتے تھے کہ اِس کے ذریعے سے عدلیہ کے پاس جو بچا کچھ اختیار ہے اُس کو مضبوط کر لیا جائے اور عدلیہ کی آزادی کو ممکن بنایا جائے لیکن لگتا ہے کہ اُن کو یہ آزادی بھی پسند نہیں آئی، کیونکہ شاید مقصد پوری طرح پورا نہیں ہوا تھا۔ اور اب 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت بنائی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کسی کو 27ویں آئینی ترمیم پر حیرانی اور پریشانی نہیں ہونی چاہیے، ایم کیو ایم پاکستان
سینیٹ میں ترمیم پاس کرنے کے لیے حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سینیٹ میں ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ اگر پیپلز پارٹی ترمیم کی مخالفت کرنے کی بجائے حکومت کے ساتھ شامل ہوتی ہے تو ایک تو اِس ترمیم سے 18ویں ترمیم اور دوسرا 1973 کے آئین کی روح ختم ہو جائے گی۔ لیکن پیپلز پارٹی شامل بھی ہو جائے تب بھی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو دوسری جماعتوں کی ضرورت پڑے گی۔
ایک وقت آ گیا تھا جب عدالتیں تقریباً حکومت چلا رہی تھی
کیا موجودہ ترامیم کے ذریعے عدالتی اختیارات پر قدغن کی وجہ عدالتی روّیہ اور انتظامی معاملات میں عدلیہ کی مداخلت تھی، اس سوال کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالتوں نے بہت سارے فیصلے غلط کیے اور ایک وقت آ گیا تھا جب عدالتیں تقریباً نظامِ حکومت چلا رہی تھیں۔
افتخار چوہدری صاحب کا دور دیکھیں تو ایسے لگتا تھا کہ نظمِ حکومت عدالت چلا رہی ہے اور وزیراعظم صدر یہ سب غیر متعلقہ ہو چکے ہیں اور اُنہوں نے تو وزیراعظم کو بھی اُٹھا کر پھینک دیا۔
یہ بھی پڑھیں:27ویں ترمیم کے مسودے پر نواز شریف سے مشاورت ہوگی، سینیٹ سے پاس کروانے کے لیے پی ٹی آئی سے بھی رابطہ ہے: خرم دستگیر
اُس زمانے میں ججز کے ساتھ آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں ججز سے کہتا تھا کہ سر اِتنا نہ کریں، آج تو یہ پارلیمنٹ کمزور ہے کل کو اگر مضبوط ہو گئی تو آپ سے یہ اختیارات بھی واپس لے لیں گے۔ جس پر کچھ ججز کہتے تھے کہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کام نہیں کر رہی تو اِس لیے ہمیں وہ خلا پُر کرنا ہے۔ کچھ ججز کہتے تھے کہ لوگوں کی ہمارے ساتھ اُمیدیں وابستہ ہیں اور کچھ میری بات سے اِتّفاق کرتے تھے۔













