بلوچستان بھر میں موبائل فون انٹرنیٹ سروس کی معطلی نے عوام کی روزمرہ زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ طلبہ، تاجر، صحافی اور آن لائن سروس فراہم کرنے والے ہزاروں افراد شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ کوئٹہ کے نوجوان فوڈ ڈلیوری رائیڈر داؤد احمد کی آنکھوں میں بے بسی صاف جھلکتی ہے، جو کہتے ہیں کہ ہم روز کماتے ہیں اور روز کھاتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ بند ہونے سے ہمارا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل
سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر حکومتِ بلوچستان نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے صوبے بھر میں موبائل فون انٹرنیٹ سروس کو 16 نومبر تک مکمل طور پر معطل کر دیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق یہ اقدام امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ تاہم اس فیصلے کے نتیجے میں عام شہری، بالخصوص روزانہ کی مزدوری یا آن لائن روزگار پر انحصار کرنے والے طبقے کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے۔
تمام اضلاع میں سروس معطل
کوئٹہ سمیت حب، چمن، واشک، جھل مگسی، لسبیلہ، ژوب، قلات، ہرنائی، شیرانی، پنجگور، زیارت، خاران، موسیٰ خیل، کیچ، کچھی، سوراب، مستونگ، خضدار، اوستہ محمد، دکی، کوہلو، سبی، نوشکی، بارکھان، قلعہ سیف اللہ، جعفر آباد، آواران، قلعہ عبداللہ، چاغی، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، گوادر اور پشین سمیت تمام اضلاع میں موبائل فون انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔

تعلیم پر اثرات
انٹرنیٹ کی بندش کے باعث تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر ہیں۔ آن لائن کلاسز لینے والے طلبہ نے شکایت کی ہے کہ وہ نہ تو لیکچرز دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اسائنمنٹس جمع کرا سکتے ہیں۔ جامعہ بلوچستان کے ایک طالبعلم نے بتایا کہ ہماری کلاسز آن لائن ہوتی ہیں، لیکن انٹرنیٹ نہ ہونے کے باعث ہم تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ بندش ہمارے مستقبل کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
روزگار کا پہیہ رک گیا
دوسری جانب کاروباری طبقہ بھی شدید پریشانی میں مبتلا ہے۔ آن لائن فوڈ سروسز اور پارسل ڈلیوری کرنے والے درجنوں نوجوانوں کا روزگار ٹھپ ہو چکا ہے۔ داؤد احمد، جو کوئٹہ میں فوڈ سروس ڈلیوری کا کام کرتے ہیں، نے بتایا کہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے کے بعد آرڈرز مکمل طور پر رک گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کام مکمل طور پر انٹرنیٹ پر منحصر ہے۔ جب سروس ہی نہیں ہوگی تو ہم لوگوں تک کھانا کیسے پہنچائیں گے؟ ہم جیسے دیہاڑی دار لوگ اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جعفر ایکسپریس 13 نومبر تک معطل، صوبے کے مسافروں کو شدید مشکلات
اسی طرح کاشف احمد، جو ایک کورئیر سروس میں کام کرتے ہیں، نے بتایا کہ روزانہ درجنوں پارسلز آن لائن آرڈر کے ذریعے موصول ہوتے ہیں، مگر انٹرنیٹ نہ ہونے کے باعث اب پورا سسٹم بند پڑا ہے۔ ہمیں آرڈرز نہ ملنے کی وجہ سے آمدنی ختم ہو گئی ہے۔ گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ یہ سب ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

صحافی برادری کی مشکلات
صحافی برادری بھی اس صورتحال سے پریشان ہے۔ خبریں ارسال کرنے، ویڈیوز اپ لوڈ کرنے اور عوام کو بروقت معلومات فراہم کرنے میں انہیں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ ہمیں خبر پہنچانے کے لیے اب پرانے طریقوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں ایک بٹن سے خبر پہنچ جاتی تھی، اب گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔
عوامی ردعمل اور مطالبات
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ سیکیورٹی خدشات کے باعث انٹرنیٹ معطل کرنا ایک وقتی قدم سمجھا جا سکتا ہے، لیکن حکومت کو متبادل انتظامات کرنے چاہئیں تاکہ عام شہریوں کا روزگار متاثر نہ ہو۔ شہریوں نے مطالبہ کیا کہ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی بندش کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔
انٹرنیٹ بندش کا مستقل مسئلہ
بلوچستان میں انٹرنیٹ بندش کوئی نیا واقعہ نہیں، مگر اس بار اس کا دائرہ کار پورے صوبے تک پھیل چکا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں جب ہر کام انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں رہا، تو اس طرح کی بندش عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔

عوام کی اپیل
آخر میں ایک شہری نے حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر سیکیورٹی ضروری ہے تو عوام کی زندگی بھی ضروری ہے۔ انٹرنیٹ بند کر کے لوگوں کے روزگار کا دروازہ بند کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔
بلوچستان کے باسی اب 16 نومبر کا انتظار کر رہے ہیں، امید کرتے ہوئے کہ شاید ان کے موبائل فونز پر دوبارہ سگنلز نمودار ہوں اور زندگی اپنی معمول کی رفتار پر واپس آجائے۔














