بوسنیا سرب جنگ (1992 تا 1996) کے دوران امیر اطالویوں کے بھاری رقم دے کر عام شہریوں پر فائرنگ کرنے کے لیے تفریحی ‘سیاحت’ منعقد کرنے کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں جس کے بعد اٹلی نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ان ‘سفاریوں’ میں شامل ہونے کی قیمت 100 ہزار یورو تک تھی، جبکہ گاوازینی کا دعویٰ ہے کہ غیر ملکی شوٹرز کو ایک ’پرائس لسٹ‘ بھی دی جاتی تھی جس میں بچوں کو نشانہ بنانے کی سب سے زیادہ قیمت مقرر تھی۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں 83 فیصد عام شہری شہید ہوئے، اسرائیلی فوج کے خفیہ ریکارڈ سے انکشاف
اطالوی صحافی اور ناول نگار ایزیو گاوازینی نے اس ‘سیاحت’ میں شامل ہونے والے مبینہ اطالوی گروہوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔
اطالوی میڈیا کے مطابق ہفتے کی تعطیلات کے دوران منعقد ہونے والی یہ ’سنائپر سفاری‘ ٹریئسٹ شہر سے شروع ہوتی تھیں، جہاں جمعے کو اسلحے کے شوقین افراد جمع ہوتے اور سابق یوگوسلاویہ کی ایئرلائن کے ذریعے سربائیوو کے گرد پہاڑوں تک پہنچائے جاتے۔ وہاں وہ بوسنیائی سرب عسکری گروہوں کو بھاری رقم ادا کر کے نیچے محصور شہریوں پر فائرنگ کرتے۔

گاوازینی کی 17 صفحات پر مشتمل درخواست میں بوسنیائی فوجی انٹیلیجنس افسر ایدین سباشچ کی گواہی بھی شامل ہے، جنہوں نے بتایا کہ 1994 میں انہوں نے اطالوی خفیہ ادارے سِسمی کو ان سفاریوں کی موجودگی سے آگاہ کیا تھا۔ سباشچ کے مطابق سِسمی نے چند ماہ بعد اس آپریشن کو روکنے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: آر ایس ایف نے 300 خواتین کو ہلاک، متعدد کیساتھ جنسی زیادتی کی، سوڈانی وزیر کا دعویٰ
یہ وہ دور تھا جب بوسنیائی سرب فوج کے طویل محاصرے میں 11 ہزار سے زائد شہری مارے گئے۔
سربیا نے ان واقعات سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی ہے، تاہم تحقیقات کرنے والوں کا خیال ہے کہ سرب انٹیلیجنس اس عمل سے آگاہ تھی۔ بوسنیائی قونصل جنرل میلان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اس بربریت کی سچائی سامنے لانے کے لیے مکمل تعاون کر رہی ہے۔
سربائیوو کے رہائشی دژمیل ہوجیچ، جنہوں نے محاصرے کے دوران اپنا بھائی کھویا، کہتے ہیں کہ ’ہفتے کے دن ہمیشہ زیادہ خطرناک ہوتے تھے‘ اور غیر ملکی شوٹرز کے حوالے سے افواہیں عام تھیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اٹلی کی یہ کارروائی بوسنیا میں انصاف کے دروازے کھولے گی۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل کا متنازع منصوبہ: غزہ کے 6 لاکھ شہریوں کی جبری نقل مکانی کا انکشاف
مختلف گواہیوں اور فلمی دستاویزات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے ’شوٹرز‘ میں امریکی، روسی اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب بوسنیائی سرب فوج کے طویل محاصرے میں 11 ہزار سے زائد شہری مارے گئے۔














