برطانیہ میں ہرنوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین ماحولیاتی اور معاشی مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔
برطانیہ میں گزشتہ چند دہائیوں میں ہرنوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں سڑکوں پر حادثات، زرعی زمینوں کو نقصان، جنگلات کی تباہی اور قدرتی توازن میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ۔ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں ہرنوں کی موجودگی عام ہو چکی ہے، جس سے انسانوں اور جنگلی حیات کے درمیان تصادم بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کہوٹہ: ہرن اسمگلنگ کی کوشش ناکام، ملزم گرفتار
اس مسئلے کا سب سے نمایاں پہلو سڑکوں پر ہونے والے حادثات ہیں۔ ہر سال ہزاروں ہرن گاڑیوں کی زد میں آ کر ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں، جبکہ متعدد افراد بھی ان حادثات میں متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسانوں کو فصلوں کی تباہی کی صورت میں بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، کیونکہ ہرن نئی فصلوں کو روندتے اور کھاتے ہیں۔
جنگلات میں درختوں کی نئی افزائش بھی شدید متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ ہرن ننھی کونپلیں کھا جاتے ہیں جس سے قدرتی جنگلات کا نظام کمزور ہو رہا ہے ۔
یہ بھی پڑھیے: محکمہ جنگلی حیات کا گلیات میں چھاپہ، نایاب جانوروں کی کھالیں، مصنوعات برآمد
ہرنوں کی آبادی میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ برطانیہ کا معتدل موسم، کھلا دیہی ماحول اور قدرتی شکاری جانوروں کی عدم موجودگی ہرنوں کے لیے سازگار حالات فراہم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برسوں میں ہرنوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے لیے شکار اور کُلنگ میں کمی بھی ایک بڑی وجہ بنی، خاص طور پر کووِڈ-19 کے دوران یہ عمل نمایاں طور پر کم ہو گیا۔
مزید یہ کہ قانوناً ہرن کسی ایک فرد یا ادارے کی ملکیت نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے ان کے انتظام کی ذمہ داری بکھر جاتی ہے اور مؤثر حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جا سکی۔ اگر اس مسئلے پر فوری اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں زرعی معیشت، ماحولیاتی تنوع اور عوامی سلامتی کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہرنوں کی آبادی کو متوازن سطح پر لانے کے لیے پائیدار اور منظم حل ناگزیر ہو چکے ہیں۔














