کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی کے طالب علم سید عمید احمد نے اپنی تخلیقی صلاحیت کے نتیجے میں پاکستان کو ان چند ممالک کی صف میں شامل کرلیا ہے جو جانوروں سے متعلق بائیو میٹرک کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی کیا ہے؟
تیزی سے بدلتی دنیا میں اب وقت آگیا ہے کہ جانوروں کا بھی ڈیجیٹل ریکارڈ موجود ہو اور یہ بات سید عمید احمد کی پی ایچ ڈی تحقیق میں سامنے آئی کہ صرف ایک تصویر سے جانور کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
جس طرح ہر انسان کی فنگر پرنٹس مختلف ہوتی ہیں بالکل اسی طرح جانوروں کو بھی قدرت نے ایسی ہی خصوصیت سے نوازا ہے یعنی جانوروں کے ناک پر موجود پرنٹس دوسرے جانور سے مختلف ہوتے ہیں، اور اسی کی بدولت جانوروں کے بائیو میٹرک کا وجود عمل میں آیا ہے۔
اس تحقیق کے بعد ایک موبائل فون ایپلی کیشن چند روز میں پبلک ہونے والی ہے جس میں کسی جانور کی ناک کی تصویر (جس میں پرنٹ نظر آئیں) کو اپلوڈ کیا جائے گا اور اس تصویر کے ساتھ جانور کے مالک کی بنیادی معلومات، شناختی کارڈ نمبر اور موبائل نمبر فراہم کرنے کے بعد یہ جانور اس شخص کے نام پر ایسے ہی ریجسٹر ہوجائے گا جیسے نادرا ریکارڈ میں کسی فرد کا ڈیٹا یا کسی گاڑی کی ریجسٹریشن ہوتی ہے اور جانور کی فروخت یا خریداری کی صورت میں اس کے مالک تک باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی سے کیا فائدہ ہوگا؟
سید عمید احمد کا کہنا ہے کہ ہم ہر جانور کو ایک الگ شناخت دینا چاہتے ہیں اور ہم نے اپنی تحقیق کو ثابت کرنے کے لیے 4 ہزار سے زائد جانوروں کی تصاویر جمع کیں اور تحقیق کا آغاز کیا۔ تحقیق نے ثابت کیا کہ اس غیر معمولی ٹیکنالوجی کی مدد سے لاپتہ جانوروں کو ڈھونڈنے میں مدد مل سکتی ہے اور جانوروں کو چوری ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانوں کی طرح جانوروں کو بھی صحت اور شناختی کارڈ کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس تحقیق کا احاطہ اس قدر وسیع ہے کہ اسے دیگر جانوروں مثلاً گھوڑوں، کتوں اور بلیوں پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور مہنگے جانوروں کی انشورنس کے عمل کو مزید تقویت دی جاسکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ چوری شدہ اور بیمار جانوروں کا باقاعدہ ریکارڈ بھی مرتب کیا جاسکتا ہے۔
سید عمید کہتے ہیں ہم اس ایپلی کیشن کو بالکل ایک پاسپورٹ کی طرز پر تیار کررہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں اس طرح کی نئی تحقیقات کی بدولت دنیا کا رخ بدل رہا ہے اور اس وقت دنیا میں صرف 2 سے 3 لوگ اس ٹیکنالوجی کااستعمال کر رہے ہیں۔
جانوروں کی شناخت کے لیے ابھی کیا کیا جارہا ہے؟
انہوں نے مزید بتایا کہ عموماً جانوروں کی شناخت کے لیے ان کے کانوں میں سوراخ کرکے ٹیگ لگایا جاتا ہے جو باعثِ تکلیف بھی ہے اور قابلِ اعتماد بھی نہیں، مگر بائیو میٹرک کی ٹیکنالوجی کے بعد پاکستان میں پہلی بار یہ ممکن ہورہا ہے کہ جدید تقاضوں پر جانوروں کا ریکارڈ جمع کرلیا جائے جسے عوام کے استعمال کے لیے مفت فراہم کیا جائے گا۔