آئی ایم ایف کا دباؤ، ٹیکس وصولیوں کا ہدف بڑھا دیا گیا

ہفتہ 24 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بین الاقومی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات کے نتیجہ میں بجٹ کے اعداد و شمار میں بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں، ایف بی آر کے محاصل کا ہدف 9200 ارب سے بڑھ کر 9415 ارب روپے، صوبوں کا 5276 ارب روپے سے بڑھ کر 5390 ارب روپے، وفاقی حکومت کے اخراجات 14460 ارب روپے سے بڑھ کر 14480 ارب روپے، پنشن کا حجم 761 ارب روپے سے بڑھ کر 801 ارب روپے، سبسڈی کا حجم 1064 ارب روپے جبکہ گرانٹس کا حجم 1405 ارب روپے کردیا گیا۔

قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ 2023-24 پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے تمام نکات پر عمل کر لیا ہے، اب اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جاتا ہے تو بسم اللہ ورنہ گزارا تو ہو ہی رہا ہے، مزید بھی کر لیں گے۔ ہم نے جو اقدامات کیے ہیں ان سے بجٹ کے خسارے میں بہتری آئے گی، مالیاتی خسارہ 300 ارب روپے کم ہو جائے گا، یہ تمام تبدیلیاں بجٹ کی دستاویزات میں شامل کر دی گئی ہیں، 215 ارب روپے کے مزید ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی، سرکاری ملازمین اور پنشنرز پر نہیں ہو گا تاہم گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کے لیے پنشن اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت کوئی بھی ریٹائرڈ سرکاری ملازمین دُہری پنشن حاصل نہیں کر سکے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اے ڈی آر سی کے ذریعے عدالتوں میں 3200 ارب روپے کے زیر سماعت ٹیکس مقدمات کے تصفیے کی کوشش کریں گے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 450 ارب روپے سے بڑھا کر 466 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی حالات کی وجہ سے گزشتہ سال درآمدات پر بعض پابندیاں لگائی گئی تھیں جس کا بنیادی مقصد وقت پر بیرونی ادائیگیوں کویقینی بنانا تھا کیونکہ اس وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں مگر اس کے باوجود ہم نے خوراک، ادویات اور صنعتوں کے لیے خام مال سمیت کئی شعبوں کو ترجیح بھی دی تھی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے درآمدات کے حوالے سے تمام پابندیاں ختم کرنے کا سرکلر جاری کر دیا ہے جو نافذ العمل ہو گیا اور اس سے تاجروں، بزنس مینوں اور صنعتوں کو درپیش مسائل ختم ہو جائیں گے جبکہ زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پارلیمنٹرینز سمیت جو لوگ حج کے لیے جانے سے رہ گئے ہیں، ان کے لیے خصوصی حج پرواز کا انتظام کیا گیا ہے جو اتوار کی صبح کو روانہ ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ بجٹ تجاویز کے حوالے سے ارکان قومی اسمبلی، ارکان سینیٹ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں، لیڈر آف دی اپوزیشن اور بالخصوص خواتین ارکان اور مختلف چیمبرز کے مشکور ہیں جنہوں نے اچھی اور مفید تجاویز دی ہیں، ان تجاویز میں موسمیاتی تبدیلی، فوڈ سیکیورٹی، شمسی ٹیوب ویلز، آبادی کے تحفظ، فنی مہارت، زراعت، بی آئی ایس پی، ای او بی آئی، کم سے کم اجرت، پسماندہ اور ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی و سماجی منصوبوں کے حوالے سے تجاویز شامل تھیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ ان تجاویز کی روشنی میں مستقبل کا روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔

300 سے لے کر 500 ملین کی آمدنی پر سپر ٹیکس برقرار رہے گا

وزیر خزانہ نے کہا کہ سینیٹ اور سینیٹ قائمہ کمیٹی نے جو تجاویز اور سفارشات دی ہیں وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، اسی طرح قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی اچھی تجاویز دی ہیں جس پر ہم ان کے مشکور ہیں۔ سینیٹ کی جانب سے مجموعی طور پر 59 تجاویز دی گئی ہیں، جن میں سے 19 عمومی نوعیت کی تھیں، ان میں سود کا خاتمہ، دفاعی بجٹ میں اضافہ، غیر ضروری اخراجات میں کمی، پیشہ ورانہ تربیت، یوٹیلٹی سٹورز پر اشیا کی دستیابی، سیاحت کے بجٹ میں اضافہ اور ریڈیو ٹی وی کے حوالے سے تجاویز شامل تھیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ مشکل حالات کے باوجود ان تجاویز کو شامل کیا جائے۔ بعض معزز اراکین نے سپر ٹیکس اور نان فائلرز کے لیے 0.6 فیصد کے ود ہولڈنگ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا، سپر ٹیکس گزشتہ سال متعارف کرایا گیا، ارکان کی تجاویز کی روشنی میں اس کے سلیبز بڑھا دیے گئے ہیں اور اب 300 سے لے کر 500 ملین کی آمدنی پر 10 فیصد سپر ٹیکس برقرار رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے سلیب کے تحت ٹیکس کی شرح کو 6، 8 اور 10 فیصد کے سلیب کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ سپر ٹیکس زیادہ آمدنی والے افراد پر لگایا جاتا ہے، نان فائلرز کے لیے بینکوں سے رقوم نکالنے پر 0.6 فیصد کا ود ہولڈنگ ٹیکس معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے ضروری ہے، اس وقت ٹیکسوں کا بوجھ چند ملین لوگ برداشت کر رہے ہیں اور وقت کی ضرورت ہے کہ جو لوگ ٹیکس ادا کر سکتے ہیں اور وہ ادا نہیں کر رہے ان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بعض معزز اراکین نے بونس شیئرز پر ٹیکس کی مخالفت کی ہے، کمپنیاں شیئر ہولڈر کو کیش اور بونس کی شکل میں منافع دیتی ہے، نقد کیش پر 15 فیصد ٹیکس عائد تھا، مگر بونس پر ٹیکس لاگو نہیں تھا، نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں نقد اور بونس دونوں پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے، یہ ٹیکس کمپنیاں نہیں بلکہ حصص یافتگان ادا کرتے ہیں۔

طویل المدت شیئر ہولڈرز کے لیے قانون میں تبدیلیاں لا رہے ہیں

وزیر خزانہ نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 98 کے حوالے سے مختلف فورمز سے سفارشات آئی ہیں، جو ونڈ فال گین سے متعلق ہیں اور اس تجویز کا ہدف کوئی خاص شخص یا کمپنی نہیں، اس تجویز کے تحت اگر وفاقی حکومت کو یقین ہو کہ کسی شعبے کو خارجی عوامل سے ونڈ فال گین ہوا ہے تو اس پورے شعبے کو اس میں شامل کیا جائے جو کارپوریٹ شعبہ ہو گا۔یہ ٹیکس افراد پر عائد نہیں ہو گا۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان واحد ملک نہیں ہے جہاں پر یہ ٹیکس لاگو ہے، یورپ سمیت کئی ممالک میں یہ ٹیکس پہلے سے لاگو ہے، ایف بی آر کی ایناملی کمیٹی کی سفارشات پر ونڈ فال گین ٹیکس جو پچھلے 5 سالوں سے لاگو ہونے کی تجویز تھی، کی مدت کو کم کر کے تین سال کر دیا گیا ہے، اب یہ ٹیکس سال 2020-21 سے لاگو ہو گا، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں میں بار بار یہ بات کہی گئی تھی کہ بینکوں نے فارن ایکسچینج کی مد میں کافی کچھ کمایا ہے تو میں اشارہ دیتا ہوں کہ ونڈ فال گین کے دائرہ کار میں یہ شعبہ بھی آ سکتا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ توانائی کی بجٹ کے منصوبے کے تحت غیر موثر اور زیادہ بجلی خرچ کرنے والے پنکھوں پر ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی تھی، وزیراعظم نے ایک اجلاس طلب کیا تھا اس میں تمام شراکت دار شریک تھے، پی ایس کیو این اے نے ایسے پنکھوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی تھی، یہ اقدام ریونیو کے مقاصد کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کا خالص مقصد بجلی کی بچت اور صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی تھا، مختلف مینوفیکچررز کی تجویز پر چھ ماہ کی رعایتی مدت دی گئی ہے اور اب اس ٹیکس کا اطلاق یکم جولائی کی بجائے یکم جنوری 2024 سے ہو گا۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی طرف سے تجاویز دی گئی ہیں، طویل المدت شیئر ہولڈرز کے لیے قانون میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ اس وقت 3.2 ٹریلین روپے کے ٹیکس سے متعلق مقدمات مختلف سطح پر موجود ہیں، پچھلی دہائی سے ان تنازعات کی فوری حل کے لیے کوششیں ہوئیں مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ اے ڈی آر سی کو مزید مضبوط بنایا جائے، تجویز کے تحت ایک کمیٹی قائم ہو گی جس کی سربراہی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج کرے گا، اس میں ایک محکموں کا نمائندہ ہو گا جبکہ ٹیکس دہندہ بھی اس کمیٹی میں شامل ہو گا، یہ کمیٹی ٹیکسوں سے متعلق مقدمات کو جلد از جلد حل کرنے کیلئے کوششیں کرے گی کیونکہ اس وقت ایسے65ہزار سے زائد مقدمات مختلف عدالتوں میں مختلف سطح پر چل رہے ہیں۔

یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیائے خورونوش کے لیے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ اے ڈی آر سی کا فیصلہ ایف بی آر پر لازمی لاگو ہو گا جبکہ ٹیکس دہندگان اپیل میں جا سکیں گے۔ موجودہ حکومت عام آدمی کی ضروریات اور افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیائے خورو نوش کے لیے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں، 5 ارب رمضان پیکیج جبکہ وزیراعظم پیکیج کے تحت سکور کارڈ کے ذریعے 30 ارب دیے گئے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم بڑھا کر 450 ارب روپے مختص کیے تھے مگر اب ہم نے تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 466 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی مسلح افواج کی کارکردگی پر فخر ہے، دفاع کو ترجیح دینی ہے، سینیٹ نے بھی افواج پاکستان کی تمام ضروریات پوری کرنے کی تجویز دی ہے، ہم افواج پاکستان کی ضروریات کے لیے بروقت رقم جاری کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے 30 ارب مختص کیے ہیں، وفاقی حکومت صوبوں کی مدد سے بہتر پالیسیاں تشکیل دے گی، کم سے کم اجرت بڑھا کر 32 ہزار کر دی گئی ہے، ای او بی آئی کی پنشن 8 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 ہزار کر دی گئی ہے، تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں کا تمام فائدہ صارفین کو پہنچایا گیا، آئندہ بھی اس پر عمل کیا جائے گا، بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس اور شہداء فیملی ویلفیئر سکیموں میں سرمایہ کاری کی حد 75 لاکھ مقرر کی تھی، پنشنرز بینیفٹس سکیم میں سرمایہ کاری کی حد بھی 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں سے پٹرول اور ہائی اسپڈ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کی حد 50 روپے سے بڑھا کر 60 فیصد کی جا رہی ہے، حکومت نے ترسیلات زر کے حوالے سے سہولیات کے لیے 80 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے اور غیر ترقیاتی سکیموں کے لیے، ہزاریہ ترقیاتی اہداف کے حصول، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور زراعت کی ترقی کے لیے خاطر خواہ رقوم مختص کی گئی، زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے 31 ارب روپے مختص کئے گئے۔

وزیراعظم کی ہدایت پر کفایت شعاری کا راستہ اختیار کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کفایت شعاری کا راستہ اختیار کیا گیا، تمام وزارتوں اور ڈویژنوں نے حکومتی ہدایات پر رواں مالی سال کے دوران اس سلسلے میں تعاون کیا، کفایت شعاری کے تمام اقدامات کو آئندہ مالی سال کے دوران بھی جاری رکھا جائے گا۔ پبلک فنانس مینجمنٹ اصلاحات کے حوالے سے تجویز دی کہ ٹی ایس اے اورٹریژری رولز کا نفاذ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی پنشن اخراجات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، ان میں اصلاحات کی ضرورت ہے، وفاقی ملازمین کے لیے حکومت کو کنٹری بیوٹری فنڈ لاگو کرنا پڑے گا، کئی ملازمین ایک سے زائد پنشن لے رہے ہیں، مجھے ایسے لوگوں کا بھی علم ہے جو تین تین پنشنز لے رہے ہیں، گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری ملازمین صرف ایک پنشن حاصل کر سکیں گے، ایڈہاک پنشن الاؤنس کو نیٹ پنشن میں ضم کیا جائے گا، پنشنر، اس کی بیوی یا خاوند اگر دونوں وفات پا جائیں گے تو ان کا قانونی وارث صرف 10 سال پنشن وصول کر سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 1997-98 میں 3 ہزار سی سی سے زائد گاڑی درآمد کرنے پر پابندی عائد کی تھی اسی طرح یہ بھی فیصلہ کیا ہے جو بھی ریٹائرڈ افسر ہوں گے، اگر ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نئی ملازمت اختیار کریں گے، تنخواہ یا پنشن میں سے صرف ایک چیز وصول کر سکیں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے بھی سوالات کیے جا رہے ہیں، حکومت نے رواں سال اپریل تک آئی ایم ایف کے تمام نکات بشمول پیشگی اقدامات پر مکمل عملدرآمد کر دیا تھا، بیرونی مالیاتی گیپ کی وجہ سے بورڈ کے سامنے کیس پیش نہیں ہو گا، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پیرس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر سے دو ملاقاتیں ہوئیں اور فیصلہ کیا گیا دونوں اطراف معاملات کو آگے لے کر جانے کے لئے ایک اور بھرپور کوشش کریں گے، اس ضمن میں گزشتہ تین روز میں حکومت کی معاشی ٹیم اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان تفصیلی بات چیت ہوئی ہے، ہم نے خلوص نیت کے ساتھ کوشش کی ہے کہ 9 واں جائزہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہو۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ان مذاکرات میں آنے والے مالی سال میں 215 ارب روپے کے ٹیکس ہم نے تسلیم کیے ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس کا بوجھ غریب طبقے پر نہ پڑے، اس طرح مذاکرات میں ہم نے یہ بھی مانا ہے کہ حکومت جاری اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کرے گی، تاہم کٹوتی کا اطلاق ترقیاتی بجٹ، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ پر نہیں ہو گا، آئی ایم ایف کی طرف سے سرکاری ملازمین پر ٹیکس کو دگنا کرنے کی تجویز دی تھی جس کو ہم نے نہیں مانا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مثال عالمگیر سرٹیفکیشن جیسی ہے کیونکہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تمام بڑے مالیاتی ادارے یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی ملک آن ٹریک ہے یا نہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا، معاہدے کی تفصیلات اس ایوان اور پوری قوم کی امانت ہیں، جب معاہدہ ہو جائے گا تو ہم اسے وزارت کی ویب سائٹ پر ڈال دیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو امور طے پائے ہیں اس کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ کے اعداد و شمار میں بعض تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے محاصل کا ہدف 9200 ارب سے بڑھ کر 9415 ارب روپے ہو گیا، صوبوں کا 5276 ارب روپے سے بڑھ کر 5390 ارب روپے ہو گیا، وفاقی حکومت کے اخراجات 14460 ارب روپے سے بڑھ کر 14480 ارب روپے ہو گئے، پنشن کا حجم 761 ارب روپے سے بڑھ کر 801 ارب روپے ہو گا، سبسڈی کا حجم 1064 ارب روپے جبکہ گرانٹس کا حجم 1405 ارب روپے ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام اقدامات کے نتیجہ میں بجٹ کے خسارے میں بہتری آئے گی، مالیاتی خسارہ 300 ارب روپے کم ہو جائے گا، یہ تمام تبدیلیاں بجٹ کی دستاویزات میں شامل کر دی گئی ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پوری قوم کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ موجودہ مشکل حالات کی کوئی وجوہات ہیں، سابق حکومت کی ملک دشمن پالیسیوں کی وجہ سے قومی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے، 9 مئی کی ریاست مخالف سرگرمیوں نے جلتی پر تیل ڈالا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے باشعور اور محب وطن عوام کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان حالات کے ذمہ دار کون ہیں، انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ہم اپنا نامکمل ایجنڈا پورا کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری معیشت مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، ہم نے ماضی میں ایسا کر کے دکھایا ہے، 2017 میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت تھی، ہم وہ مقام دوبارہ حاصل کریں گے، وہ وقت دور نہیں جب پاکستان گروپ 20 میں شامل ہو جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp