سپریم کورٹ نے گھریلو تنازع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے چھ صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔
تفصیلی فیصلے میں فاضل عدالت نے قرار دیا کہ آئینی عدالتیں فیملی کیسز کے حقائق کا جائزہ نہیں لے سکتیں۔ اپیل کا حق دینے یا نہ دینے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ دوسری اپیل کا حق دستیاب نہ ہو تو متعلقہ فورم کا فیصلہ حتمی تصور ہوگا۔ نیز یہ کہ ہائیکورٹ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سائلین کو دوسری اپیل کا حق دے۔
c.p._1418_2023 by A. Khaliq Butt on Scribd
جسٹس عائشہ ملک نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ فیملی کیسز میں حقائق کا جائزہ لینے کے لیے ہائیکورٹ کو دوسری اپیل کا حق نہ دینے کا مقصد قانونی تنازعات کو جلد حل کرنا ہے۔ اگر ہائیکورٹس فیملی کیسز میں حقائق کا جائزہ لینا شروع کر دیں تو اس سے مقدمات کا سیلاب آئے گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ عدالتوں کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ غیر ضروری طور پر قانونی عمل کا غلط استعمال کریں۔ جب ٹرائل کورٹس اور اپیلٹ کورٹ حقائق کا تعین کر دیں تو آئینی عدالتوں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں
جسٹس عائشہ ملک قرار دیا کہ ٹرائل کورٹس اور اپیلٹ کورٹس کو حقائق کا جائزہ لینے کا اختیار دینے کا مقصد غیر ضروری مقدمہ بازی کی روک تھام ہے۔
انہوں نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ کوہاٹ کی فیملی کورٹ نے میاں بیوی کے تنازع پر بیوی کے حق میں فیصلہ سنایا تھا، ڈسٹرکٹ کورٹ کوہاٹ نے فیملی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، پشاور ہائیکورٹ نے حقائق کا درست جائزہ نہ لینے پر ماتحت عدالتوں کے فیصلے کالعدم قرار دیے تھے۔