توشہ خانہ کیس : بیان ریکارڈ کروائیں ورنہ فیصلہ دے دوں گا، جج ہمایوں کا عمران خان سے مکالمہ

پیر 31 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم عمران خان پیر کو توشہ خانہ کیس میں ایڈشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں پیش ہوئے۔ عمران خان کو پیر کے روز 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا تاہم اڑھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی دو مرحلوں میں ہونے والی سماعت میں بیان ریکارڈ تو نہ ہوسکا لیکن یہ سماعت انتہائی ہنگامی خیز رہی۔

سماعت کے پہلے مرحلے میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث خرابی طبع کی وجہ سے تاخیر سے پیش ہوئے، ان سے قبل شیر افضل مروت نے کیس کے حوالے سے دلائل دیے۔ خواجہ حارث عدالت میں آئے تو تاخیر سے آمد پر معذرت چاہی اور دلائل کا آغاز کر دیا۔

خواجہ حارث ابھی دلائل دے ہی رہے تھے کہ عمران خان اپنی کرسی سے اٹھے اور روسٹرم پر آگئے۔ خواجہ حارث نے توشہ خانہ کیس سے متعلق دیگر درخواستیں زیر التوا ہونے پر دلائل دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی۔

اس دوران عمران خان نے خواجہ حارث کے کان میں کچھ سرگوشی بھی کی۔

عمران خان اور جج ہمایوں دلاور کا مکالمہ

خواجہ حارث نے سماعت ملتوی کرنے سے متعلق دلائل دیے تو جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ یہ بیان تو معمول کا حصہ ہے اس سے کیوں ڈر رہے ہیں۔ آپ نے کیوں ذہن بنا رکھا ہے کہ بیان ریکارڈ کرنے سے کوئی فیصلہ آجائے گا۔

عمران خان پہلے 20 منٹ تک روسٹرم پر کھڑے رہے اور ہاتھوں کی انگلیوں سے تسبیح کے دانے پھیرتے رہے۔ عمران خان نے جج ہمایوں دلاور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’جج صاحب مجھے تو آپ کا سوالنامہ ہی کل موصول ہوا ہے، عاشورہ کے باعث وکلا سے مشاورت بھی نہیں کرسکا‘۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ سوالنامہ تو جاری ہوئے چار روز ہو گئے ہیں یہ تو آپ کی لیگل ٹیم کا مسئلہ ہے۔ پہلے بھی کہا تھا کہ آپ کی لیگل ٹیم ہی آپ کے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جج صاحب یہ معمول کا بیان نہیں، مجھ پر 180 سے زائد کیسز ہیں کبھی لاہور میں تفتیش تو کبھی کس مقدمے میں پیشی، یہ کوئی معمولی بات تو نہیں۔

جج ہمایوں دلاور نے دوبارہ اصرار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سینیئر وکلا آپ کے ساتھ موجود ہیں آپ چاہیں تو ایک ایک سوال آپ کو پڑھ کر سنا دیا جائے گا، آپ کو سمجھا بھی دیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے خود مطمئن ہونا ہے مجھے وقت چاہیے، یہ بیان میرے نام سے ہوگا تو جب تک میں مطمئن نہ ہوں میں کیسے بیان دے سکتا ہوں۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا ’سن لیں آپ کو پہلے بھی تین بار مہلت دی گئی ہے آپ بیان ریکارڈ کروائیں ورنہ میں فیصلہ دے دوں گا‘۔

اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ یہ تو آپ گن پوائنٹ پر بیان ریکارڈ کرنے کا کہہ رہے ہیں، 3 بجے آپ کو بتا دیں گے بیان ریکارڈ کروانا ہے یا نہیں۔ جس کے بعد کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔

عمران خان کی کمرہ عدالت میں وکلا سے مشاورت

عمران خان تقریباً ایک گھنٹے تک کمرہ عدالت میں ہی موجود رہے، اس دوران خواجہ حارث اور شعیب شاہین سے سوالنامہ پر مشاورت جاری رہی۔

خواجہ حارث نے عمران خان کو سوالنامے سے متعلق قانونی مشورے دیے اور سوالوں کے آگے کچھ لکھتے بھی رہے۔

تین بجے سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ اس کیس میں فرد جرم ہی قانون کے مطابق عائد نہیں کی گئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اس پر کہا کہ فرد جرم اس دن عائد ہوئی تھی جب آپ نے عدالتی بائیکاٹ کیا تھا۔

خواجہ حارث الیکشن کمیشن کے وکیل پر برس پڑے

اس پر خواجہ حارث الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز پر برس پڑے اور کہا کہ آپ دلائل دیں یا مجھے بات کر لینے دیں۔

اس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ جاری رکھیں، فرد جرم اس دن عائد ہوئی تھی جب آپ کے دیگر چار وکلا نے موکل کو کہا کہ چلیں ہمارا بائیکاٹ ہے۔

خواجہ حارث نے اس پر کہا کہ کوئی ثابت کردے کہ میں نے بائیکاٹ کا لفظ استعمال کیا ہو، کوئی کیسے یہ بات کر سکتا ہے کہ میں نے بائیکاٹ کا لفظ استعمال کیا۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے ایک گھنٹے تک اپنے دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو آخری مہلت دیتے ہوئے منگل کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے دوبارہ طلب کر لیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp