توشہ خانہ تحائف بریگیڈیئر چیمہ کے ذریعے بیچے، عدالت ان کو نوٹس جاری کرکے بلائے، عمران خان

منگل 1 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں ایڈیشنل سیشن عدالت اسلام آباد میں بیان ریکارڈ کروا دیا، عمران خان خان کا 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان عدالت میں ریکارڈ کر لیا گیا۔

ایڈیشنل سیشن عدالت اسلام آباد میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاو نے کی۔

سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ ملزم کہاں ہیں؟ سیشن جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کو کھڑا کریں میں سوال پوچھتا ہوں آپ نے جواب دینا ہے تو دیں۔

جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ  آپ میری گزارشات سن لیں جس پر ایڈیشنل جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ وہ قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کریں گے، پہلے ملزم کا بیان لیں گے اس کے بعد آپ کو بھی سنیں گے۔

عمران خان نے بلند آواز میں بیان ریکارڈ کروانا شروع کر دیا

ایڈیشنل جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ میں سوال پوچھ رہا ہوں آپ نے بیان ریکارڈ کروانا ہے تو کروائیں، چیئرمین تحریک انصاف نے روسٹرم پر آ کر بلند آواز میں بیان ریکارڈ کروانا شروع کر دیا۔

عمران خان نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پراسیکوشن کے گواہان کو نہیں سنا  کیوں کہ گواہان کے بیان ان کے موجودگی میں نہیں لیے گئے، اسی طرح فرد جرم ان کی یا ان کے وکیل کے موجودگی میں عائد کی گئی اور نہ ان کو  پڑھ کر سنائی گئی۔

کسی کو نمائندہ مقرر نہیں کیا، عمران خان

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ ’میں نے اس کیس میں کسی کو نمائندہ مقرر نہیں کیا اور نہ اس کی درخواست کی، معزز عدالت نے خود سے ہی میرا نمائندہ مقرر کیا، میرے وکلاء نے میری غیر موجودگی پر پراسیکیوشن کی شہادت پر اعتراض اٹھایا ہے۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’ مجھے پراسیکیوشن کے کیس کو سمجھنے کے لیے کوئی وقت نہیں دیا گیا، عاشورہ کی چھٹیوں میں گواہان کے بیانات مجھے مہیا کیے گئے۔‘

اسپیکر قومی اسمبلی نے جھوٹ پر مبنی ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا، عمران خان

بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے مقدمہ درج کرنے کے لیے مجاز اتھارٹی سے اجازت لی اور نہ ہی یہ مقدمہ 120 دن کے اندر درج کیا گیا، اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا ریفرنس سیاسی نوعیت کا تھا، اسپیکر قومی اسمبلی نے جھوٹ اور لغو پر مبنی ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا۔

انہوں نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر جا کر فیصلہ کیا، قانون کے مطابق توشہ خانہ کے تحائف کا نام لکھنا، اثاثوں کی تفصیلات میں لکھنا ضروری نہیں اور نہ ہی گوشواروں میں ایسا کوئی کالم موجود ہے۔

تحائف کے تخمینہ لگانے کے مرحلے میں شامل نہیں تھا، عمران خان

عمران خان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پراسیکیوشن نے توشہ خانہ تحائف کا تخمینہ لگانے والے اور خزانہ میں چلان جمع کروانے والے کو بطور گواہ شامل نہیں کیا، میں کسی بھی طرح سے تحائف کی قیمت کا تخمینہ لگانے کے مرحلے میں شامل نہیں تھا، اس لیے میرے خلاف یہ تمام دستاویزات بطور ثبوت پیش نہیں کی جا سکتیں۔

سابق وزیر اعظم نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی بھی شخص جو ریکارڈ کا کسٹوڈین ہو بطور گواہ شامل نہیں کیا جا سکتا، کابینہ ڈویژن سے کوئی شہادت پرایسکیوشن نے کیس میں شامل نہیں کی، استغاثہ نے کوئی شواہد پیش نہیں کیا جو کہ کابینہ ڈویژن کے دستاویزات کو ثابت کرے۔

چیرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شکایت دائر کرنے کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا، انہوں نے 2017 سے 2020 تک کے گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیے تھے، الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر شکایت 120 دنوں کے بعد دائر کی گئی۔

عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ ان پر ریفرنس میں 2017-18 اور 2018-19 کے اثاثہ جات کا ذکر کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے اگلے سالوں کے بھی اثاثہ جات تک رسائی حاصل کی جو پی ڈی ایم کی بدنیتی ظاہر کرتی ہے، لسٹ بناتے وقت تحائف کی تفصیلات نہیں بنائی گئیں، لسٹ بناتے وقت کسی نے تحائف کی مالیت کی تفصیلات نہیں بتائیں، گواہان نے تحائف کی مالیت کا چالان بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا۔

انہوں نے کہا کہ مجھ سے تحائف کے حوالے سے دستاویزات بناتے وقت رابطہ نہیں کیا گیا، صرف اتنا کہوں گا کہ تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو سوالنامے میں نہیں لکھا جا سکتا، تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو نہ تصدیق کیاگیا نہ اس کی شہادت لی گئی، کسی فرد نے تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا بطور گواہ اقرار نہیں کیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں درج تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا کبھی مجھ سے پوچھا ہی نہیں گیا، کیبینٹ ڈویژن کی جانب سے کوئی گواہ شکائت کنندہ عدالت میں نہیں آیا، دستاویزات 160 صفحات پر مشتمل ہیں لیکن شکائت کنندہ اس حوالے سےکوئی گواہ سامنے نہیں لایا۔

عمران خان نے بتایا کہ بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ میری غیر موجودگی میں الیکشن کمیشن نے طلب کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کرنے کے بعد بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا، بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ لینے اور جمع کروانے والا فرد بطور گواہ پیش نہیں ہوا، مجھ سے 2018-19 میں 4 تحائف کا پوچھنا درست نہیں کیونکہ میرے پاس اس سال یہ تحائف موجود نہیں تھے، شکائت کنندہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ 2018-19 میں چار تحائف میرے پاس ہی تھے یا نہیں۔

توشہ خانہ تحائف ذاتی استعمال کے لیے تھے، عمران خان

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’میں نے 2020-21 میں اپنے ظاہر اثاثہ جات میں قیمتی تحائف کا زکر کیا جس کے لیے 11 ملین روپے ادا کیے، میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے قیمتی تحائف کا ذکر الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گوشواروں میں کیا، توشہ خانہ تحائف ذاتی استعمال کے لیے تھے جن کا زکر میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے دائر اثاثہ جات میں کیا۔ 2020-21 میں جمع کروائے گئے چالان توشہ خانہ، کیبینٹ ڈویژن اور الیکشن کمیشن میں بھی جمع ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف نے مزید کہا کہ سوچنا عجیب ہے کہ الیکشن کمیشن نے 5 تحائف پر کیسے نتیجہ اخذ کرلیا کہ میں نے جمع نہیں کروائے، میرا اکاؤنٹنٹ 40 سال سے  کام کر رہا  ہے اسے اثاثہ جات جمع کروانے کے حوالے سے معلوم ہے، یہ بات جھوٹ ہےکہ 2020-21 میں اثاثہ جات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں غلط بیان ریکارڈ کیا گیا۔

مجھ سے تحائف کا کیا اس کیے صرف پوچھا جارہا تاکہ مجھے نااہل کر سکیں؟چیرمین پی ٹی آئی

عمران خان نے سوال اٹھایا کہ ستر سال کی تاریخ میں الیکشن کمیشن یا نیب نے توشہ خانہ ریکارڈ کبھی مانگا؟ مجھ سے تحائف کا کیا اس کیے صرف پوچھا جا رہا ہے تاکہ مجھے نااہل کر سکیں؟ میرے خلاف فوجداری کی شکایت دائر کی گئی، شکائت کنندہ پر لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تحائف میرے پاس تھے جو اس نے ثابت نہیں کیے۔

بریگیڈیئر جمشید چیمہ کے ذریعے تحائف بیچے، عمران خان

چیئرمین تحریک انصاف نے عدالت کو بتایا کہ ’میں نے تحائف ذاتی طور پر نہیں بیچے، میں نے بریگیڈیئر جمشید چیمہ کے ذریعے تحائف بیچے جن کو عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کرسکتی ہے، الیکشن کمیشن نے 2019-20 کے حوالے سے کبھی خریداروں کے نام نہیں پوچھے، تحائف پاس ہونے کے باوجود ظاہر نہ کرنے کے الزام پر شکائت کنندہ کے پاس ثبوت نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ تحائف بیچنے کے بعد میرے پاس وصول رقم صرف 28 ملین روپے رہ گئی تھی، 2019-20 میں وصول کردہ تحائف اثاثہ جات میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا کیونکہ سال ختم ہونے سے قبل ان کو اگے تحفے میں دے دیا گیا تھا، تحائف بیچنے کے بعد وصول کردہ رقم اثاثہ نہیں سمجھا جاسکتا۔

’ میرا اسسٹنٹ فیصلہ کرتاہےکہ اثاثہ جات کی کون سی تفصیلات مہیہ کرنی ہیں یا نہیں، میرے کنسلٹنٹ نے توشہ خانہ کے تحائف کو ایک گروپ کی شکل میں شامل کیا تھا، میں نے توشہ خانہ تحائف اپنے پاس پچاس فیصد قیمت پر رکھے، پہلے تحائف رکھنے کی قیمت 20٪ ہوا کرتی تھی جو پی ٹی آئی حکومت نے 50٪ کردی تھی۔‘

عمران خان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ’شکائت کنندہ نے جھوٹا الزام لگایا کہ میں نے اثاثہ جات کے حوالے سےجھوٹا بیان الیکشن کمیشن میں دائر کیا، شکائت کنندہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ گواہ مصدق انور اثاثہ جات کے ریکارڈ کا محافظ ہے، دورانِ جرح گواہ مصدق انور نے اثاثہ جات کا محافظ ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

’ شکائت کنندہ کو میرے خلاف شکائت دائر کرنے کی ڈائریکشن نہیں دی گئی، گواہ مصدق انور کا عہدہ بھی نہیں لکھا گیا، گواہان کو آخری لمحے پر میرے خلاف بطور گواہ سامنے لایا گیا، اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ گواہان میرے خلاف جھوٹا بیان دیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’14 ماہ سے پی ڈی ایم مجھے انتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہے، مجھ پر توشہ خانہ سمیت 180 کیسز ہیں، مجھ پر 2 قاتلانہ حملے کیے گئے، 9 میی واقعات پر 10  ہزار سے زائد میرے کارکنان اور رہنما جیل میں ہیں، دیگر کارکنان اور رہنماؤں کو زبردستی انڈر گراؤنڈ کیا گیا۔

چیئرمین تحریک انصاف نے عدالت میں کہا کہ میں اپنی طرف سے گواہان کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا، چیرمین پی ٹی آئی کا 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان عدالت میں ریکارڈ کر لیا گیا۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی نے عدالت سے استدعا کی کہ گواہان کو پیش کرنا ہے اس کے لیے وقت دیا جائے، جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو نہیں پتہ کہ کس کس کو بلانا ہے؟ بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ متعلقہ گواہان جن کا تعلق بنتا ہے ان کو بلائیں گے دو دن کا وقت دیا جائے، 3 اگست کا ٹائم دے دیں ہم گوہان کی لسٹ دے دیں گے۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل کی جانب سے مزید وقت مانگنے پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے مخالف کی اور کہا گواہان کی 2 اقسام ہیں، ایک سرکاری اور ایک پرائیویٹ گواہ ہوتے ہیں، جج ہمایوں دلاور نے تحریک انصاف کے وکیل کو کہا کہ کل پرائیویٹ گواہان کی لسٹ فراہم کر دیں۔

جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp