سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاق کے نمائندے اٹارنی جنرل اور درخواست گزاروں کے وکلا سبھی متفق نظر آئے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات کو غیر سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا بلکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ جب فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا تو کیا فوجی اہلکار قریبی تھانے میں جا کر ایف آئی آر درج کراتے؟ ان کی تو تربیت ہوتی ہے کہ حملہ آور کو گولی مار دو۔ اس پر بیرسٹر اعتزاز احسن بولے؛ تو پھر گولی کیوں نہیں ماری؟ اسی بات کو دہراتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی کو بہت سنجیدہ صورتحال پیدا ہوئی جس پر چوہدری اعتزاز احسن صاحب نے بھی کہا کہ گولی کیوں نہیں ماری۔ میں کبھی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو، ہمیں پاکستان کے شہریوں کا دفاع کرنا ہے اور آرمی کو غیر قانونی کارروائی سے روکنا ہے۔
آج کی سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے اہم ریمارکس یہ بھی دیے کہ آج مجھے پتہ چلا ہے کہ متوازی نظام انصاف کیا ہے اور فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175 کی ذیل میں نہیں آتیں۔ آج کی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے اس مقدمے میں شامل تمام فریقین کی تعریف کرتے ہوئےکہا کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ اتنے لائق لوگ ان کے سامنے دلائل دے رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ساتھی ججز کی لیاقت کو بھی سراہا۔
مزید پڑھیں
آرمی حکام کے کردارکے بارے میں جب اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس مقدمے میں سویلینز کے ٹرائلز کے حوالے سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر قائم ہیں اور اس عدالت میں بیان بھی جمع کرائیں گے تو چیف جسٹس نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کتنی اچھی بات ہوتی ہے جب تمام فریقین آئین کی تشریح کے لیے عدالت سے تعاون کرتے ہیں، اگر نہ بھی کریں تو بہرحال ہمیں فیصلہ دینا ہے۔
آج کی سماعت میں جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ملٹری کورٹ ایک عام عدالت کی طرح نہیں اور وہاں چلائے گئے مقدمے میں اپیل کا حق عام عدالت میں نہیں مل سکتا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہاں چلائے گئے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کے لیے قانون سازی کی سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں اور اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے کہ ملٹری کورٹ میں چلائے گئے مقدمات میں ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالت آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت قائم عام عدالت کے زمرے میں نہیں آتی اس لیے اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق حاصل نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا اس مقدمے میں ہم آرمی ایکٹ کی ذیل میں درج جرائم پر سویلین کے ٹرائل کا آئینی جائزہ لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ جسٹس منیب اختر نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ بنیادی انسانی حقوق کو تو مقننہ کی صوابدید پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا، بنیادی حقوق کا تصور تو یہ ہے کہ ریاست بھی اگر چاہے تو واپس نہیں لے سکتی۔
کیا چیف جسٹس، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع کے بعد اس پر عمل کر رہے ہیں ؟
آج کی سماعت میں درخواست گزار چوہدری اعتزاز احسن نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی جانب عدالت کی توجہ مبذول کرائی اور کہا کہ ان ترامیم کے تحت انٹیلی جینس ایجنسیاں بغیر وارنٹ کبھی بھی کسی کے بھی گھر میں گھس سکتی ہیں جو بڑی خطرناک بات ہے اور عدالت کو اس پر سوموٹو نوٹس لینا چاہیے۔
تاہم چیف جسٹس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ قانون کے تحت اب اکیلا چیف جسٹس یہ فیصلہ نہیں کر سکتا اور اس کے لیے مشاورت درکار ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں یہی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس ازخود نوٹس اختیارات خود سے استعمال نہیں کر سکتے بلکہ چیف جسٹس سمیت تین سینیئر ترین ججز کی مشاورت سے ازخود نوٹس اختیارات کا استعمال کیا جائے گا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس قانون پر حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔