رکشہ گردی

اتوار 12 فروری 2023
author image

صفیہ کوثر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیال اور حقیقت میں واضح فرق ہے جس میں خیال کو فوقیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پررکشہ سائنس کی ایک ایسی ایجاد ہے جس کا خیال اس کے وجود سے بہتر ہے، اگر اس سے آپ کا واسطہ پڑے تو سائنس کے آباؤ اجداد کے حق میں آپ کے منہ سے جو کلمات بلند ہوں گے وہ اگر کسی نے سن لیے تو آپ کی معاشرتی زندگی تنہائی کا شکار ہو جائے گی۔

مغرب ترقی کی دوڑ میں اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ اب ترقی بھی پیچھے رہ گئی ہے  ۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب وہ  ہمارے دیس کی بعض مفید چیزوں مثلاً رکشے  کے تصور کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جس پر اِس طرف سے پراسرار خاموشی ہے اور کوئی ایسا کھرا ایمان دار محقق نہیں جواہل ِ مغرب کی اس سادہ لوحی کو دور کرے اور ان کی  غلط فہمیوں کا ازالہ کرے۔ چناں چہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے وسیع تجربات کی روشنی سے اہل ِعلم کے دماغوں کو ضرور منور کروں گی ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ رکشہ ایک نظریاتی ایجاد ہے،  یہ بھی کم جگہ گھیرتا ہے اور رائے عامہ میں کافی وزن رکھتا ہے ؛  جہاں سے چاہے،  جب چاہے موڑ کاٹ سکتا ہے؛گو کہ اس میں سواریوں کے بیٹھنے کی جگہ محدود ہے لیکن ضرورت کے وقت اس میں تین بچے سامنے اور دو نوجوان ڈرائیو کے دائیں بائیں بٹھا کر بغیر منصوبہ بندی کے پیدا ہوجانے والی آبادی کو بھی منصوبے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

  اس کے علاوہ رکشے کی ترقی کا سفر اندر اور باہر سے الگ طرح دکھائی دیتا ہے، جو مسافر رکشے کے اندر بیٹھے ہوں ان کو راستہ ہمیشہ مستقیم نظر آتا ہے لیکن اصل گھن چکر کیا ہے یہ دیکھنے کے لیے رکشے کا سٹیلائٹ ویو دیکھنا پڑتا ہے کیوں کہ رکشہ ڈرائیور کو بھی بعض اوقات راستہ نظر نہیں آتا۔

  سب سے بڑی خوبی جس کی وجہ سے بڑی اقوام کے منہ میں پانی آ رہا ہے وہ یہ خیال ہے کہ رکشہ میں ایندھن کم جلتا ہے یعنی’ کم گھلے،  زیادہ چلے‘۔  یہ بات بھی سفید جھوٹ ہے۔ جو لوگ رکشہ پر سفر کرتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ رکشے کا کرایہ ٹیکسی سے کم از کم ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتا ہے اور اس کی صحت عام شہری کی جسمانی صحت  سے دس گنا زیادہ مخدوش ہوتی ہے۔  آپ  اگر دس بار رکشے میں بیٹھیں  تو اس میں سات بار رکشہ کسی نہ کسی وجہ سے آپ کو  بیچ منجدھار میں چھوڑ دیتا ہے۔ جہاں سے نکلنے  کے لیے بھی آپ کو ایک  رکشہ ہی  چاہیے ۔

رکشے کو دھکا لگانا  بظاہر آسان لگتا ہے کیوں کہ رکشہ  دیگر گاڑیوں کی نسبت ہلکی پھلکی سواری ہے ۔ سائیڈ سے گزرتی ہوئی گاڑی اگر ذرا سا طعنہ بھی دے تو آپ کا رکشہ الٹ جاتا ہے جسے ڈرائیور اکیلے ہی ایک ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا کر لیتا ہے اور سڑک کی سرحدوں پر ایسے حادثوں کی منتظر طاقتیں اس طرح کے اندرونی مسائل میں  بےکار محسوس ہوتی ہیں ۔ در اصل رکشے میں سفر کرنے کے لیے کسی خاص دفاعی طاقت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، اس کو صرف اچھے عقیدے اور خدا کی قدرت پر بھروسے کے زور پر چلانا چاہیے جس سے مغربی اقوام کا دامن خالی ہے۔

ہو سکتا ہے کسی کو یہ گمان ہو کہ رش اور ٹریفک کے اژدحام میں رکشہ آپ کی جان بچا سکتا ہے، لیکن ماہرین کے مسلسل تجربے اور  زبردست مشاہدے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ٹریفک میں رکاوٹ اور ہنگامے کی اصل وجہ رکشہ ہی ہے۔ بعض اقوام اسی لیے رکشہ کو ٹک ٹک کہتی ہیں جیسے کسی زمانے میں ہم وزیر ِاعلیٰ پنجاب کو خادم ِ اعلیٰ کہتے تھے تاکہ خواہ مخواہ شک پیدا ہو۔

انتظامیہ بڑی محنت سے رکشے کو دارالحکومت سے باہر رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے  تاکہ کوئی سفارتی اہل کار حقیقت نہ جان لے ۔ ملک کے دیگر شہروں کے لوگوں کو جب  سکون کی سانس لینی ہو یا اپنے گھر کے اخراجات کا بجٹ بنانا ہو تو وہ  میٹرو میں بیٹھ کر اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں اور شام کو حلقہ ارباب اِقتدار کو کوستے ہوئے گھر کی طرف جاتے ہیں جہاں میٹرو سے اتر کر رکشے بھوکی شارک مچھلیوں کی طرح  ان کےمنتظر رہتے ہیں ۔ ایسے میں ان  دیوانوں کےدل میں دیوانوں کی سی بات آتی ہے کہ کیوں نہ  پیدل ہی کسی طرف بھاگ جائیں:

جب شہر کے لوگ نہ’ رکشہ’ دیں  کیوں بن میں نہ جا بسرام کریں

  اس لوٹ کھسوٹ میں صنف کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔  یہ میدان ایسا ہے جہاں خواتین کو بھی برابر  کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جس پر میں نے بارہا خوشی منائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رکشہ والے زیادہ بداخلاقی سے بات کرتے ہیں تاکہ کوئی خاتون  یہ نہ سمجھ لے کہ ان کو اس  میں کوئی  دلچسپی ہے لیکن جب خواتین ان کے موم جامہ منڈھی نشست پر تشریف رکھتی ہیں اور پھسلنے سے بچنے کے لیے سامنے کی دیوار کے ساتھ ایڑھی والی نفیس جوتی سمیت پاؤں جما کر پکی ہوکر بیٹھتی ہیں تو ڈرائیور سامنے کے پانچ آئینے ایڈجسٹ کر لیتا ہے۔ جس میں ہم کلام ہونے  کے لیے ٹی وی کے بہت سارے کیمروں میں بات کرنے کا تجربہ ہی کام آ سکتا ہے تاکہ آپ باری باری مناسب آئینے میں دیکھ دیکھ کر رواں اظہارِخیال کر پائیں۔

میری ایک سہیلی کا بڑے مایوس انداز میں کہنا ہے کہ رکشہ جتنے ہچکولے کھاتا ہے  ان میں وہ سڑک بھی دیکھ پائے تو بڑی بات ہے کسی آئینے میں ہمارا عکس وہ کیا خاک دیکھ پائے گا ، بنجمن سسٹرز جس گاڑی والے بابو کو ہلکے ہلکے گاڑی چلانے کا کہہ رہی ہیں وہ بھی کوئی رکشہ والا ہی ہے جس کے ہاں  شاک ابزورب کرنے کا کوئی آلہ نہیں ہوتا اور دل کا جام چھلک جاتا ہے ۔

’اہل ِ نظر‘  جانتے ہیں کہ  جب انسان زمین پر چلتا یا دوڑتا ہے تب بھی آنکھوں کو بہت ہچکولے محسوس  ہوتے  ہیں لیکن انسان کا دماغ کسی منظر سے  یہ شاکس نکال کر صاف منظر دکھا سکتا ہے بالکل ایسے  جیسے ہمارا  سرکاری میڈیا ہوتا ہے۔ اس پر سب اللہ کا شکر ادا کرتے  ہیں کہ رکشے والا جب میری سہیلی کو ٹھیک سے دیکھ لے گا تو پھر  ضرور انہیں ان کی  منزل پر چھوڑ دے گا ۔بھلے  آپ کو محسوس ہو کہ آپ کو  ڈرائیور کی آواز نہیں آ رہی تو  شاید ڈرائیور بھی آپ کی آواز نہیں سن پا رہا ۔ یہ خیال ِ خام پہلی فرصت میں رکشے سے نکال دیں کیوں  کہ ڈرائیور آپ کے وہ آڈیو میسیجز بھی  بخوبی سن سکتا ہے جو آپ کان سے لگا کر بھی نہیں سن پا رہے۔

اچھے وقتوں میں راولپنڈی  کی شاہراہوں پر سوزوکی ایف ایکس ٹیکسی کا راج رہا ہے جن کے پیچھے انگریزی حروف  RAK کے اسٹیکرز لگے ہوتے تھے۔موٹر مکینک  رستم احمد کیانی   جو ٹیکسی  بھی مرمت کرتا اپنی مشہوری کے لیے اپنے نام کےپہلے حروف کے یہ اسٹیکرز لگا دیتا۔ بعد ازاں یہ فیشن ہو گیا اور لوگ یہ اسٹیکرز خود خرید کر لگانے لگے۔

ٹیکسی ڈرائیورز کا مزاج تیور کے لحاظ سے  کسی زنانہ  کپڑے کی دکان کے سیلز مین   پر گیا ہے کہ   سواری کو بٹھاتے ہوئے جس لجاجت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔  وہ مسافر کے تشریف رکھتے ہی ہوا ہو جاتی ہے،  مسافر کو اچھوت کی طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ ان کو تباہ کرنے آئے ہیں؛  پھر ٹیکسی والوں کے مزاج کی عجلت کہ  شریف انسان تو سارا سفر نہایت شرمندگی میں ہی گزاردے  ؛ کبھی کسی وقت  آپ کو بنک کے  اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے کا خیال آ جائے  تو بھی ٹیکسی والے لڑ پڑتے ہیں ، اور طے شدہ کرائے میں پچاس روپے کا یک مشت اضافہ ہو جاتا ہے۔

اگر آپ وہ بد قسمت ہیں جن کی گلی میں کچھ گڑھے بھی ہیں تو آپ ہمدردی کے لائق ہیں، بیک ویو آئینے سے ڈرائیور کی ایک نظر بیگم کی دو نظروں سے زیادہ لرزہ خیز ثابت ہوتی ہے کیوں کہ بیگم کے سامنے آپ کو اپنی عزت آبرو کی اتنی پرواہ نہ ہوتی ہوگی ، ایسی صورت میں  ہر گڑھے کے سو روپے بل میں اضافی ادا کر کے جب آپ بھی اپنے گھر میں داخل ہوں  تو آپ کو  دنیا میں کچھ اچھا نہ لگے گا اور وہی چڑا چڑا پن طبیعت میں در آئے گا  جو پنڈی والوں کا خاصہ ہے۔

رکشے کی آب و ہوا بھی کسی گورکھ دھندے سے کم نہیں۔ اس میں کوئی ایسا فلٹر لگا ہوتا ہے کہ گرمیوں میں کیا مجال جو ہوا کا جھونکا  بھی رکشے کے  اندر آ جائے۔ صرف گرد و غبار اور دھول ہی اندر آتی ہے جو پھر باہر نہیں نکل پاتی ۔ سردیوں میں ہر طرف سے برفانی ہوائیں لگتی ہیں۔سردیوں میں سائبیریا سے آنے والی ہوائیں سب سے پہلے رکشے کی سواری کو ہی تو محسوس ہوتی ہیں۔  بارش کا زمانہ بھی رکشے میں کشتئ نوح  کے مترادف  ہے۔ بقول غالب ’…ابر دو گھنٹہ برسے ہے تو چھت چار گھنٹے ٹپکتی ہے۔‘

باتوں باتوں میں مجھے ایک رکشہ والا یاد آ گیا جو مجھے ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ ہماری گلی کے باہر اس کا اڈہ ہے۔ خیر رکشے والوں کے لیے میرے دل میں الگ ہی مقام ہے ۔ اس رکشے والے بھائی کی زندگی کے فلسفیانہ اتار چڑھاؤ کی میرے پاس مکمل معلومات ہیں ۔ ایک نہایت ہی فکر انگیز واقعہ بھی مجھے یاد ہےجو اس نے کچھ اس طرح سنایا کہ آج بھی دل پر نقش ہے:

”کل میں گھر سے نکلا   نا تو ساتھ ہی برف پڑنے لگی (ژالہ باری، اولے ) یہ موٹی موٹی برف گر رہی تھی۔  میں تو رکشہ آرام سے چلا کر سڑک کی طرف جا رہا تھا۔  میں نے دیکھا کہ ایک آدمی برفوں سے بچتا ہوا گلی میں دیوار کے ساتھ لگ لگ کر جا رہا ہے۔ پھر بھی اس کو برفیں پڑ رہی تھیں۔ مجھے بڑی ہنسی آئی۔ باجی میں اس کو لفٹ دے سکتا تھا۔ پر مجھے بڑی ہنسی آئی کہ یہ کیسے برفوں سے بچتا ہے لیکن پھر بھی اس کے سر پہ برفیں بج رہی ہیں۔ ہاہاہاہا۔ لیکن میں نے سوچا کہ اس کے گناہ دھل رہے ہیں ۔تو خیر ہے کون سا وہ مر جائے گا۔ آج اس کے گناہ دھل ہی جائیں تو اچھا ہے۔“

 اس کی  ذہانت اور تصوف سے حیران ہوتے ہوئے میں نے بھی لقمہ دیا؛ ” آپ بھی اتر جاتے کچھ گناہ آپ کے بھی دھل جاتے۔“ وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ اپنے گناہ ایسے بخشواتا۔ وہ اپنے بچوں اور بیوی سے نیک اعمال کروا کر جنت میں چلا جائے گا۔ ہمارا حکومت سے تقاضا ہے کہ اہل ِ مغرب کو اگر واقعی رکشہ چاہیے تو ہمارے   رکشہ ڈرائیوروں  سمیت دیا جائے۔

میں یہ بھی بتانا چاہوں گی کہ رکشے کو  ٹھکانے لگانا بھی آسان نہیں ۔ ایک بار آپ نے جو رکشہ بنا دیا وہ ایک تحریک کی طرح پورے ملک پر چھا جائے گا۔ بھلے آپ کہیں کہ ہم نے سہولت کے لیے بنایا تھا۔  یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ سمارٹ فون سہولت اور وقت کی بچت کے لیے بنایا گیا  یا رولر کوسڑ     انسان کو جھولے دینے کے لیے بنایا گیا۔ محبوب کا بھی خیال ہی  اس کے اصلی وجود سے اچھا ہوتا ہے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے جواس محفل میں ہے

یعنی محبوب کے بارے میں فرضی قصہ گوئی اس کی ذات کے  اصل تجربہ سے زیادہ خوش گوار ہے۔ اِدھر آپ اس سے ملے اُدھر کسی نہ کسی دشمن نے دیکھ لیا۔  پھر کسی  دن محبوب کو بھی روشنی میں دیکھ لینے سے آپ کا دل بجھ گیا اور محبوب آپ کی پراسرار خاموشی سے بدگمان ہو گیا۔یوں بھی آپ کا تصوراتی محبوب آپ کی  معیشت پر برے اثرات نہیں ڈالتا۔ المختصر بہتر یہی ہے کہ ایسی سب چیزیں صرف آپ کے دل میں ہی  رہیں۔ مغرب کو بھی ہماری بات  کچھ تجربات کے بعد  سمجھ میں  آئے گی،۔  یہی اس دنیا کا  شیوہ ہے کہ کوئی کسی کے تجربے سے نہیں سیکھتا ورنہ ہم تو لکھ لیتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ِ ضرورت کام آئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنفہ راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ریڈیو، ٹی وی پر کمپئرنگ کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتی ہے اور کبھی اصلی۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp