ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت اسلام آباد نے کم سن گھریلو ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں گرفتار سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت اسلام آباد میں رضوانہ تشدد کیس میں نامزد ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے کی۔
ملزمہ سومیہ عاصم نے جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کے روبرہ ضمانت کی درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان پر ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کم سن ملازمہ رضوانہ اپنے والدین کی مرضی سے سومیہ عاصم کے گھر رہائش پذیر تھی اور سومیہ عاصم کا کم سن ملازمہ رضوانہ کے ساتھ رویہ اپنے بچوں کے جیسا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیا کیا گیا ہے کہ سومیہ عاصم پڑھی لکھی، عزت دار اور شائستہ خاتون ہیں، سومیہ عاصم کے خلاف حقائق توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے، وہ میڈیا میں منفی مہم کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سومیہ عاصم معصوم ہیں اور ان کو مقدمے میں غلط طریقے سے شامل کیا گیا ہے، ایسے کوئی شواہد نہیں جو سومیہ عاصم کو لگائے گئے الزامات سے جوڑ سکیں، سومیہ عاصم کی مقدمے میں شمولیت بدنیتی اور مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت سومیہ عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔
ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل صفائی قاضی دستگیر اور مدعی کی جانب سے نئے وکیل فیصل جٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
مدعی وکیل فیصل جٹ نے وکالت نامہ عدالت میں وکالت نامہ جمع کرایا اور کیس کی تیاری کے لیے عدالت سے کچھ وقت مانگا جس پر جوڈیشل مجسٹرٹ شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کہ آپ وقت لے لیں لیکن مقدمے پر آج ہی دلائل دیں۔
وکیل صفائی(سومیہ عاصم کے وکیل) نے عدالت سے استدعا کی کہ کچھ دستاویزات فراہم کرنے کے لیے درخواست دے رہا ہوں، رضوانہ کا سرگودھا میں جو رات 3 بجے میڈیکل ہوا اس کی رپورٹ چاہیے۔
وکیل صفائی قاضی دستگیر نے کہا کہ سرگودھا میں ہونے والی میڈیکل کے بعد سومیہ عاصم کے خلاف ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات میں اضافہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں
جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ بچی والدین کے حوالے کب ہوئی؟ جس پر وکیل صفائی نے بتایا کہ سکائی وے اڈے پر 23 جولائی کو 8 بجے بچی (رضوانہ ) والدین کے حوالے کی گئی، ایف آئی آر کے مطابق بچی کو رات 3 بجے سرگودھا ڈی ایچ کیو اسپتال پہنچایا گیا، اسپتال کی میڈیکل رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی۔
رضوانہ کی والدہ کا عدالت میں بیان
تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کے والدین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، رضوانہ کی والدہ روسٹرم پر آ گئیں اور کہا کہ ’ میری بیٹی پر ظلم ہوا، بیٹی جب کار سے نکلی تو کار ڈرائیور نے بھی مجھے دھمکی دی۔
وکیل صفائی قاضی دستگیر نے کہا کہ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بچی کو لینے کے لیے ملزمہ کے گھر گئے، ایف آئی آر کے مطابق سومیہ عاصم بچی پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھی، اڑھائی گھنٹے بچی بس اسٹینڈ پر موجود رہی، بچی کے سر میں اگر کیڑے پڑے ہوتے تو وہ اپنا سر کھجاتی، جب بچی حوالے کی نہ تو تشدد تھا اور نہ سر میں کیڑے تھے نہ پسلیاں ٹوٹی تھیں۔
مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ گاڑی سے اترنے کی ویڈیو بھی عدالت کو دکھائیں، وکیل صفائی نے بس اڈے پر رضوانہ کو والدین کے حوالے کرنے کی ویڈیو عدالت میں پیش کر دی۔
مجسٹریٹ شائستہ کنڈی ویڈیو میں تو بچی(رضوانہ) کو اٹھا کر بس میں سوار کروایا جارہا ہے، وکیل صفائی نے کہا کہ من گھڑت کہانی اڑھائی گھنٹے کی ویڈیو میں سامنے آئے گی، 10 منٹ تک بچی کی والدہ شمیم بچی رضوانہ ملزمہ سومیہ کے ساتھ گاڑی میں موجود رہی۔
ملزمہ سومیہ کے ڈرائیور نے دھمکیاں دیں، رضوانہ کی والدہ
مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے رضوانہ کی والدہ سے استفسار کیا کہ سچ بتائیں گاڑی میں کیا بات ہوئی تھی، رضوانہ کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزمہ سومیہ کے ڈرائیور نے دھمکیاں دیں، مجھے کہا گیا کہ بچی کام نہیں کرتی جب بچی سے پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی بچی سکارف پہنتی ہے؟ رضوانہ کی والدہ نے بتایا کہ سکارف پہنانے کا مقصد زخم چھپانا تھا۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ سومیہ عاصم کے خلاف دفعہ 324 چھ دنوں بعد مقدمے میں ڈالی گئی، رضوانہ کو 7 ماہ حبس بے جا میں رکھنے کا الزام ہے لیکن رضوانہ کی والدہ نے تو اس (رضوانہ) سے فون پر بھی بات کی۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ معلوم نہیں رضوانہ کی والدہ کس کے ساتھ فون پر ڈھائی گھنٹے بات کرتی رہی، ویڈیو کے مطابق بچی کی والدہ مسلسل اڑھائی گھنٹے موبائل فون پر رہتی ہے، کسی کی بچی اتنی زخمی ہو اور وہ مسلسل موبائل فون پر کیسے مصروف رہ سکتا ہے؟
جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ بچی(رضوانہ) زخمی تو ہے نا، اس کو زخمی کس نے کیا؟ وکیل صفائی نے کہا کہ بچی کی والدہ نے ویڈیو پر بیان دیا جو ریکارڑ پر موجود ہے۔
وکیل صفائی قاضی دستگیر نے کہا کہ دیہات میں دیکھا جا سکتا ہے خواتین ملتانی مٹی کھایا کرتی ہیں، بچی مٹی کھانے کی عادی تھی، پودوں کو کھاد دی گئی اور بچی نے وہ مٹی کھائی، جس کی وجہ سے بچی کو دانے نکلے ،لیکن بچی کو والدین کو صحیح سلامت حوالے کیا گیا۔
مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ اس کا کوئی ثبوت ہے کہ بچی صحیح سلامت والدہ کے حوالے کی گئی، ایسی کوئی بات نہ کریں جس کا ثبوت آپ کے پاس موجود نہیں، آپ قانونی حوالے دیں کہ قانون کیا کہتا ہے۔
ملزمہ سومیہ عاصم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بچی طورخم بارڈر پر سول جج کی فیملی کے ساتھ انجوائے کر رہی ہے، میرے پاس تصاویر ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے استفسا رکیا کہ کیا تصاویر موجود ہیں؟ وکیل صفائی نے کہا کہ میرے پاس تصویریں ابھی موجود نہیں لیکن عدالت میں لے آؤں گا۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ سومیہ عاصم سول جج کی اہلیہ ہیں،جس پر مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے کہا کہ آپ یہ کہنا چھوڑ دیں کہ ملزمہ سول جج کی اہلیہ ہیں، اب یہ نہیں کہنا، کیوں کہ یہاں(عدالت میں) ملزمہ سومیہ عاصم ہیں۔
’زنیرا نامی خاتون رضوانہ کو امداد بھیجتی تھی‘
ملزمہ سومیہ عاصم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بچی سومیہ عاصم کے پاس ملازمت پر نہیں تھی جس پر مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے کہا کہ دو دن پہلے سومیہ عاصم نے عدالت میں کہا کہ بچی کو پیسے دیتی رہی۔
قاضی دستگیر نے بتایا کہ امریکہ میں زنیرا نامی عورت امداد بھیجتی تھی، وہی بچی کے والدین کو دیتے تھے، رضوانہ کے والدین کے پاس کوئی گھر نہیں تھا، 10 ہزار امداد سومیہ عاصم بھی دیتی تھیں۔
مجسٹریٹ شائسہ کنڈی نے استفسار کیا کہ گھر میں کیوں بچی کو رکھا ہوا تھا جس پر سومیہ عاصم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سومیہ کے گھر والوں سے شادی پر ملاقات ہوئی فیصلہ ہوا کہ 3,3 بچیاں لے کر جائیں گے اور ان کو امداد دیں گے۔
مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ بچی کو کسی سکول میں داخل کروایا ہوا تھا؟ وکیل صفائی قاضی دستگیر نے بتایا کہ رضوانہ کی عمر 16 سال ہے اور وہ سکول میں داخل نہیں تھی، بچی کو قاری صاحب بھی آ کر گھر میں قرآن پڑھاتے تھے، فلاحی نیت سے رکھی ہوئی تھی۔
مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ کیا کوئی دستاویزات ہیں کہ بچی کو امداد دی جاتی تھی؟ وکیل صفائی نے بتایا کہ میرے پاس کوئی دستاویزات نہیں، فلاحی کام کا مثالی کیس ہے۔
مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے وکیل صفائی قاضی دستگیر کے دلائل دہراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وکیل صفائی کہہ رہے کہ فلاحی کام کا مثالی کیس ہے اور قاضی دستگیر سے کہا کہ آپ بار بار زبانی باتیں کر رہے۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل کے دلائل
وکیل صفائی نے کہا کہ سومیہ عاصم اور امریکہ میں رہنے والی زنیرا کا معاملہ ہے، فلاحی کام کے دستاویزات موجود نہیں، صرف زبانی باتیں ہیں۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ وکیلِ صفائی نے تمام زباںی کلامی باتیں کی ہیں اور صرف مفروضے بنائے ہیں، واقعہ ایک دن کا نہیں بلکہ ایک سیریز پر مبنی واقعات ہوئے ہیں۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے عدالت کو بتایا کہ بچی (رضوانہ) سول جج کے گھر میں تھی اور اس کو مان بھی لیا گیا ہے، سول جج کے گھر میں بچی تھی لیکن انجریوں کو تاحال نہیں مانا گیا، سرگودھا کے سرکاری ہسپتالوں کا حال بھی ہمیں معلوم ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کہ جب مریض ایمرجنسی میں جاتا ہے تو اسپتال کی سلپ بن جاتی ہے، پراسیکیوٹر وقاص حرل نے کہا کہ کہا گیا کہ 6 گھنٹے کا وقت کہاں گزارا گیا، رضوانہ کے والدین انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اسپتال والے پولیس کو کال کرتے ہیں،والدین کال نہیں کرتے۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے دلائل میں کہا کہ گزشتہ سماعت پر میرے سے بھی غلطی ہوئی اور میرے فاضل دوست سے بھی غلطی ہوئی، رپورٹ کے مطابق رضوانہ کو 17 زخم ہیں جبکہ پہلے 14 زخم بتائے گئے۔
پراسیکیوٹر وقاص حرل نے کہا کہ باقی سب تو رشتے دار ہیں ایک نیوٹرل بندے کا بھی بیان ریکارڑ پر موجود ہے، بس کے ڈرائیور کا بیان ریکارڑ پر موجود ہے۔ مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ اس کا بیان کیا ہے؟
پراسیکیوٹر وقاص حرل نے بتایا کہ بیان میں ڈرائیور نے کہا ایک بچی زخمی حالت میں تھی، پراسیکیورٹر وقاص حرل نے گواہان کی لسٹ عدالت کو مہیا کردی۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے بتایا کہ سول جج کے گھر 4 سال سے ایک استاد ٹیوشن پڑھانے آ رہا ہے، گھر میں آنے والے استاد نے کہا دیگر بچوں کو پڑھایا لیکن رضوانہ کو کبھی نہیں پڑھایا، تمام انجریوں کے لیے ریڈیولوجسٹ اور دیگر ماہرین کو بھیجا گیا، رضوانہ کی انجریوں کی تفصیلات لینی تھیں اس لیے طبی ماہرین کو معاملہ بھیجا گیا۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل کے مطابق رضوابہ کے والد، والدہ اور ماموں کا بیان موجود ہے، رضوانہ کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جو سب سے بڑا ریکارڈ ہے، ریکارڈ میں رضوانہ کی تصاویر بھی موجود ہیں، انجریوں کی نوعیت دیکھی جا سکتی ہے۔
سیکیورٹر وقاص حرل نے کہا کہ وکیلِ صفائی کی جانب سے دی گئی ویڈیو کو فرانزک کے لیے بھیجا جانا چاہیے،سی سی ٹی وی میں بچی کی حالت عیاں ہے، مشکل سے لیٹی ہوئی ہے۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمہ سومیہ عاصم کے خلاف مقدمے میں تو ناقابلِ ضمانت دفعات لگی ہوئی ہیں، طاہرہ بتول کیس کا حوالہ دیتے ہوئے پراسیکیورٹر وقاص حرل نے درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کر دی۔
مدعی وکیل فیصل جٹ کے دلائل
مدعی وکیل فیصل جٹ نے سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل میں کہا کہ ویڈیو دیکھی گئی، تمام نظریں کیس پر ہیں، ابھی عدالت نے کہا سول جج کی اہلیہ ہیں لیکن انصاف ملے گا، رضوانہ کے والدین عدالت میں موجود ہیں، رو رہے ہیں۔
وکیل فیصل جٹ نے عدالت کو بتایا کہ رضوانہ کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں زخم نہ ہوں، پورا معاشرہ رضوانہ کے کیس سے پریشان ہے، سومیہ عاصم سے آلہ تشدد بھی برآمد کرنا ہے۔
مجسٹریت شائستہ لودھی نے سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ میں 2 بجے سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناؤں گی۔
بعد ازاں عدالت نے ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی درخواست مسترد کردی۔