شہریار آفریدی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ کا انتظامیہ اور پولیس کیخلاف کارروائی کا فیصلہ

بدھ 16 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رہنما تحریک انصاف شہریار آفریدی کی گرفتاری کے کیس میں جاری شوکاز نوٹس پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خلاف فرد جرم آئندہ سماعت پر عائد کی جائے گی۔

رہنما تحریک انصاف شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ  کے جسٹس بابر ستار کیس نے کی۔

ڈی سی اسلام آباد بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، آئی جی پولیس اسلام آباد اور چیف کمشنراسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے جہاں شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کو بھی پیش کیا گیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل شیر افضل مروت بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

ڈپٹی کمشنراسلام آباد کی جانب سے 9 مئی کو مختلف شہروں میں پرتشدد واقعات کا حوالہ دینے پر جسٹس بابر ستار نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ صرف اسلام آباد کی بات کریں اور اپنے آرڈر پڑھیں۔ جس پرڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ آئی بی نے رپورٹ دی کہ شہریار آفریدی ڈسٹرکٹ کورٹس پر حملہ کر سکتے ہیں۔

اس موقع پرجسٹس بابر ستارنے استفسار کیا کہ شہریار آفریدی جیل میں عدالت پر حملے کا منصوبہ کیسے بنا رہے تھے؟ کیا شہریار آفریدی کی میڈیا اور موبائل تک رسائی تھی؟ گر شہریار آفریدی جیل میں رہ کر عدالت پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے تو جیل انتظامیہ کیخلاف کیا کارروائی کی گئی؟

ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق شہریار آفریدی نے اشتعال پھیلایا، ڈسٹرکٹ کورٹس پر حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ عدلیہ مخالف مہم میں بھی ان کا نام آیا۔

عدالتی استفسار پر کہ جیل میں ہونے کے باوجود انہوں نے لوگوں کو کیسے اشتعال دلایا، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا کہنا تھا کہ ان کی آنکھیں اور کان تو انٹیلیجنس رپورٹس ہی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے اسپیشل برانچ اور انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹس بھی عدالت میں پڑھ کر سنائیں ۔

عدالت میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیو ہوگئی جب جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ شہریار آفریدی کس کی معلومات پر گرفتار ہوئے۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ گرفتاری کے وقت وہ ایس ایچ او نہیں تھے۔ جس پر جسٹس بابر ستار بولے؛ پھر تو آپکی جان چھوٹ گئی ، ڈی پی او کون تھا؟ متعلقہ ڈی پی او نے روسٹرم پرآکر عدالت کو بتایا کہ وہ اس وقت چھٹی پرتھے۔

جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ 8 مئی کی انٹیلیجنس رپورٹس تھی کہ صورتحال کشیدہ ہے، شہریار آفریدی جیل میں بیٹھ کر جن کو تشدد پر اکسا رہا تھا، ان میں سے کسی کو گرفتار کیا گیا؟ جس پر آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ وہ تو ماسٹر مائنڈ کے پیچھے جائیں گے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ پڑھا گیا وہ پولیس سسٹم کا مذاق اڑا رہا ہے، فیصلہ کر لیں کہ ملک کو آئین کے تحت چلانا ہے یا کسی اور طرح سے چلانا ہے۔ انہوں نے آئی جی پولیس کو تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ڈی سی صاحب آپ نے اپنے شوکاز کا جواب جمع کروایا ہے، آپ نے ایم پی او کے آرڈر میں جو لکھا ہے وہ دیکھیں، آپ نے 16 مئی کے ایم پی او میں وہی وجوہات لکھی تھیں جو 8 اگست کے آرڈر میں ہے اور عدالت نے آپ کا  وہ ایم پی او آرڈرغیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریارآفریدی کیس میں جاری شوکاز نوٹس پر ڈپٹی کمشنراسلام آباد کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ عدالت اس ضمن میں ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے گی۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آئندہ سماعت پر ڈپٹی کمشنراسلام آباد پر فرد جرم عائد کی جائےگی۔

عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد پولیس کو بھی روسٹرم پر طلب کرلیا۔ ان کے وکیل طاہر کاظم نے موقف اختیار کیا کہ پہلا ایم پی او آرڈرکالعدم قرار دینے کی وجوہات مختلف تھیں، عدالت نے کہا کہ نظربندی احکامات بعد میں جاری ہوئے اور گرفتار پہلے کیا گیا، تھریٹ الرٹس پر کارروائی خدشات کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔

اس موقع پر پولیس حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے تماشا بنایا ہوا ہے،عدالت ایم پی او آرڈر کلعدم دیتی ہے، اور پھر نیا آرڈر جاری ہوجاتا ہے۔ آپ سمجھتے سب اندھے ہیں؟

عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز کا جواب بھی غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف بھی توہین عدالت کے مرتکب ہونے پرفرد جرم عائد کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے آئی جی پولیس اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے متعلقہ ایس ایچ او اور ڈی پی اوز کے نام دینے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے متعقلہ ایس ایچ او اور ڈی پی او کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ جیل اڈیالہ سے شہریار آفریدی سے جیل میں ملاقاتوں کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔

شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کو فوری رہا کرنے کا حکم 

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ شاندانہ گلزار کے بارے میں بھی انٹیلیجنس رپورٹس ملیں، ان پر اشتعال انگیزی اور پُرتشدد واقعات پر اکسانے کا الزام ہے۔ جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وہ مواد دیکھا ہے؟ ڈپٹی کمشنر بولے؛ وہ ویڈیوز اور بیانات موجود ہیں، سوشل میڈیا پوسٹس کی کاپیاں مہیا کر دیتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے رہنماؤں شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار سے متعلق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ایم پی او آرڈر معطل کرتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ تاہم انہیں شہر چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ شہریار آفریدی کی حفاظت اور عدالت پیش کرنے کے ذمے دار آئی جی اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر ہوں گے۔ عدالت نے کہا کہ اگر شاندانہ گلزار کو کچھ ہوا تو آئی جی اور چیف کمشنر ذمہ دار ہوں گے۔

شہریار آفریدی کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیانات نہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ میں آپ سے توقع کرتا ہوں کہ یہ کیس چلنے تک آپ کوئی بیان نہیں دیں گے، میڈیا یا سوشل میڈیا پر کوئی بیان نہیں آنا چاہیے آپ کی طرف سے۔

عدالت نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp