وفاقی تحقیقاتی ایجسنی ( ایف آئی اے ) نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی گرفتاری کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اسد عمر کو باضابطہ گرفتار نہیں کیا گیا، انہیں محض ضروری پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کے بعد سابق وزیر خزانہ اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سینیئر رہنما اسد عمر کے اہل خانہ نے بھی ان کے گرفتار نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی ) کے سینیئر رہنما اسد عمر کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے گرفتار کر لیا ہے تاہم اتوار کو رات گئے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اسد عمر کو محض معمولی پوچھ گچھ کے لیے لایا گیا تھا انہیں باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا، اس لیے ان کی گرفتاری کی خبروں میں صداقت نہیں۔
بعد ازاں اسد عمر کے اہل خانہ نے بھی اس بات کی تردید کی کہ اسد عمر کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اس سے قبل وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے باعث اسد عمر کی گرفتاری کی اطلاعات کو تقویت ملی۔
واضح رہے کہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 15 اگست کو درج کیا گیا ۔
ایف آئی آر کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سائفر میں موجود اطلاعات کو غیر مجاز افراد تک پہنچایا اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود کی جانب سے حقائق کو مسخ کیا گیا تاکہ ان کو ذاتی فائدہ پہنچ سکے، اس اقدام سے ریاست کو خطرے میں ڈالا گیا، اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے سائفر کے مندرجات کے غلط استعمال کی سازش کی گئی۔
ایف آئی آر کی کاپی پر درج ہے کہ 28 مارچ کو بنی گالا میں ہونے والے اجلاس میں سازش تیار کی گئی کہ سائفر کے مندرجات کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ عمران خان کی جانب سے مندرجات میں ہیر پھیر کرنے کو کہا گیا۔ سابق وزیراعظم نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی خاطر سائفر کو استعمال کیا۔
مزید پڑھیں
ایف آئی آر کے مطابق عمران خان کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام اپنے پاس رکھنا بدنیتی تھی۔ سائفر وزارت خارجہ میں واپس نہیں بھیجا گیا، اب بھی سابق وزیراعظم کے قبضے میں ہے۔
ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کے اس اقدام سے پورا سائفر سیکیورٹی سسٹم خطرے سے دوچار ہوا۔ ملزمان نے جو اقدامات کیے ان سے غیر ملکی قوتوں کو فائدہ پہنچا اور ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
اعظم خان، اسد عمر اور دیگر کے کردار کی بھی تحقیقات کی جائیں گی
ایف آئی آر کے متن میں یہ بھی درج ہے کہ عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا اس میں کیا کردار تھا، اس کا تعین تحقیقات کے دوران کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسد عمر اور دوسرے ساتھیوں کے کردار کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
مقدمے کے مطابق عمران خان اور شاہ محمود کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 اور 9 لگائی گئی ہے۔ دونوں پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 بھی لگائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر گمشدگی کے معاملے پر درج مقدمے میں ایف آئی اے نے اسلام آباد سے گرفتار کیا، جبکہ عمران خان پہلے ہی جیل میں موجود ہیں جہاں ان سے تحقیقات کی جائیں گی۔