جب لفٹ کے اندر لطیف کھوسہ نے سب سےکلمہ پڑھنے کو کہا

جمعہ 25 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمعہ کے روز عمران خان کے سزا معطلی کی سماعت تھی۔ یہ ایک غیر معمولی دن تھا تاہم سماعت میں کوئی اہم پیش رفت نہ ہوئی البتہ  سماعت کے فوراً بعد اس وقت ماحول تبدیل ہوگیا جب عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ لفٹ میں پھنس گئے۔ 50 سے زائد منٹ تک لطیف کھوسہ، نعیم حیدر پنجوتھہ اور چند صحافی لفٹ میں پھنسے رہے۔

سینئیر وکیل لطیف کھوسہ انتہائی غصے میں کمرہ عدالت سے نکلے تو تیسری منزل سے نیچے آنے کے لیےلفٹ میں سوار ہوئے۔ زیادہ افراد ہونے کی وجہ سے میں نے سیڑھیوں سے نیچے جانے کا فیصلہ کیا۔ احاطہ عدالت میں وکلاء الیکشن کمیشن کے وکیل کے تاخیری حربے استعمال کرنے کے خلاف شدید نعرہ بازی کر رہے تھے۔

تقریبا 10منٹ گزرے ہوں گے، میں سماعت کا احوال بتانے کے لیے لائیو جانے کی تیاری کر رہاتھا۔ اسی اثنا میں لطیف کھوسہ کی معاون وکیل سوزین جہاں خان پریشانی کے عالم میں آئیں، کہنے لگیں کہ لطیف کھوسہ لفٹ میں پھنس چکے ہیں اور انتظامیہ کوئی مدد نہیں کر رہی۔ یہ سن کر بعض صحافی لفٹ کی جانب تیسری منزل کی طرف بھاگے۔ جب دوسری منزل پر پہنچے تو وہاں وکلاء اپنی مدد آپ کے تحت لفٹ کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ابتداء میں یہ ایک معمول کا واقعہ لگ رہا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرا تو پتہ چلا کے بلڈنگ میں ایسی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی ایکسپرٹ ہی موجود نہیں۔

وکلاء کی سر توڑ کوششوں کے بعد لفٹ آپریٹر آئے، انہوں نے ہتھوڑیوں سے لفٹ کا لاک توڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

لطیف کھوسہ کی معاون وکیل سوزین جہان خان نے وی نیوز کو بتایا کہ جب وہ لطیف کھوسہ کے ہمراہ عدالت سے باہر آئیں اور وہ لفٹ میں سوار ہوئے تو رش کی وجہ سے وہ سیڑھیوں سے نیچے اتریں، جب لطیف کھوسہ کے ساتھ رابطہ نہیں ہوا تو وہ سمجھیں کہ شاید وہ میڈیا ٹاک کر رہے ہیں لیکن انہیں باہر بھی نہیں پایا تو ایک بار پھر لفٹ کی جانب دوڑیں، دیکھا کہ لفٹ کے بٹنز پر ایرر کا نشان آرہا تھا، نتیجتاً وہ متعلقہ حکام کے دفتر گئیں، انہیں 10 منٹ تک وہاں انتظار کروایا گیا۔ جب صورتحال بگڑنے لگی تو پھر صحافیوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی۔

اس لفٹ کے اندر وکلاء کے علاوہ چند صحافی بھی موجود تھے۔ لفٹ میں پھنسنے والے افراد میں ڈیجیٹل میڈیا ’رفتار‘ سے منسلک صحافی اکرام راجہ نے لفٹ کے اندر پھنسنے کے حوالے سے بتایا کہ ابتداء میں تو سب یہی سمجھ رہے تھے کہ ابھی آپریٹر آئے گا اور لفٹ کھول دی جائے گی۔ حبس اور گرمی کی وجہ سے چند منٹس بعد ہی گھٹن محسوس ہونے لگی۔ 20،15 منٹ گزرنے کے بعد سانس لینا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں دل کا مریض ہوں، میری حالت اب خراب ہو رہی ہے، باہر بتا دیں کہ ایمبولنس بلالیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب سریوں اور ہتھوڑی کے ذریعے بیرونی دروازے کا کچھ حصہ کھولا گیا تو سانس لینےمیں کچھ آسانی ہوئی، پھر باہر سے ایک پنکھا بھی لگا دیا گیا تھا لیکن حبس اب بھی شدید تھی اور اندر پریشانی بڑھتی چلی جارہی تھی۔

جب ریسکیو کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کارروائی چل رہی تھی تو بعض وکلاء نیچے بیٹھ گئے۔ مایوسی پھیلتی چلی جارہی تھی۔ ایک وقت میں لطیف کھوسہ نے سب سے کہا کہ بس! اب کلمہ طیبہ پڑھ لیں کیونکہ یہ سب جان بوجھ کر کیا جارہا ہے۔

اکرام راجہ کے مطابق ’میں نے موت اپنے سامنے دیکھی۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اب بس سب کچھ ختم ہونے والا ہے کیونکہ اندر گھٹن بہت زیادہ تھی‘۔

صحافی عثمان چوہدری کے مطابق ’جب باہر سے کسی نے بوتل میں سٹرا ڈال کر لفٹ کے دروازے سے اندر کیا تو سب نے ایک ایک گھونٹ پانی پیا‘۔

لطیف کھوسہ کو جب کہا کہ آگے آکر سٹرا سے پانی پی لیں تو انہوں نے کہا’جب تک سب پانی نہیں پی لیتے، میں نہیں پیوں گا‘۔

پونے گھنٹے تک یہ ڈرامائی صورتحال جاری رہی، جس کے بعد سی ڈی اے کی ریسیکو ٹیمیں وہاں پہنچیں اور 10 منٹ کے اندر اندر خصوصی آلات کے ذریعے لفٹ کا دروازہ کھولا گیا ، یوںد لفٹ میں پھنسے 18 افراد باہر نکلے۔

سینئیر وکیل لطیف کھوسہ سب سے آخر میں لفٹ سے باہر آئے۔ انہوں نے مکے لہرا کر باہر کھڑے وکلا کے نعروں کاجواب دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp