امریکی یونیورسٹی آف کنساس اور گیلپ نے 2009 میں یہ جاننے کے لیے ایک تحقیق کی کہ آیا انسان طبعی طور پر optimist (پُرامید) ہے یا pessimist (ناامید) ہے۔
اس تحقیق کے لیے 140 ممالک سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں سے سوال جواب پوچھے گئے۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق چاہے معاشی کساد بازاری ہو، جنگ ہو، قحط ہو یا کوئی وبائی آفت، اس کے باوجود بھی انسانی فطرتاً ایک پُرامید مخلوق ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر میرے ذہن میں یہ تحقیق آگئی کہ بحیثیت قوم ہم نے تو مشکل سے مشکل حالات کا سامنا جواں مردی سے کیا، تو کیا اب ہم امید ہار چکے ہیں؟ کیا پاکستان کے حالات کبھی بہتر ہونے کی کوئی امید باقی ہے؟ طبعی طور پر میں بھی ایک optimist یا پُرامید شخص ہوں لیکن بعض اوقات حالات و واقعات امید کو یاس میں بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔
بحیثیت قوم ہم ہر وقت کسی نہ کسی مسیحا کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمیں ان مشکلات سے نکال کر ایک خوشحال زندگی کی طرف لے جائے۔ میرے نزدیک یہی سوچ ہی ہماری موجودہ زبوں حالی کی بنیادی وجہ ہے۔ بجائے اپنے حالات خود بدلنے کے ہم کسی ایسے شخص کے انتظار میں رہتے ہیں جو ہمارے حالات بدل دے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کو لیڈ کرنے کے لیے لیڈر ضروری ہیں لیکن یہ لیڈرز ہم اپنے آپ میں کیوں نہیں تلاش کرتے؟ بہرحال اب بڑھتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ ایک غریب ملک کیسے سیکڑوں ارب کی مفت بجلی، گاڑیاں، پیٹرول اور دیگر مراعات ایک مخصوص طبقے کو دے سکتا ہے؟
پچھلے 3، 4 دنوں سے ملک بھر میں عوام نے بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے اور نئے ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف ایک از خود تحریک شروع کی ہے۔ لوگوں نے بجلی کے بلوں کو جلادیا، بجلی ترسیل کرنے والی کمپنیوں کے نمائندے اپنے علاقوں میں میٹر ریڈنگ سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں عوام ردِعمل کے طور پر ان پرحملہ آور نہ ہوجائے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے تو اپنے ملازمین کو یہاں تک احکامات جاری کردیے کہ کوئی افسر گرین نمبر پلیٹ گاڑی کے ساتھ باہر نہ جائے مبادہ لوگ اس پر حملہ نہ کردیں۔
میڈیا نے بھی اسی عوامی ردِعمل کو پھرپور کوریج دی اور یہ موضوع پچھلے کچھ دنوں سے ہر ٹاک شو کا حصہ ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے بھی اب آہستہ آہستہ عوامی ردِعمل کو دیکھتے ہوئے ان کی آواز میں آواز ملانی شروع کی ہے لیکن اس بات کا احساس اب سیاسی جماعتوں کو بھی ہوچکا ہے کہ وہ عوام میں تیزی سے اپنا اعتماد کھو رہے ہیں۔
اس عوامی ردِعمل کو دیکھتے ہوئے نگراں وزیرِاعظم نے ایک خصوسی اجلاس بلایا تاکہ بجلی کے بلوں میں عوام کو کچھ ریلیف دیا جاسکے۔ اس حوالے سے انہوں نے اعلان کیا کہ واپڈا کے گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے افسران کے مفت بجلی یونٹ ختم کیے جائیں۔
نگراں وزیرِاعظم صاحب یا تو واقعی بہت معصوم ہیں یا اس قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ اس ہومیوپیتھک اعلان سے کیا قوم یہ مان لے گی کہ ان افسران کے مفت یونٹ ختم کرنے سے بجلی اب سستی ہوجائے گی یا عوام کے کاندھوں سے مہنگائی کا بوجھ اتر جائے گا؟ معلوم نہیں وزیرِاعظم کو کسی نے بتایا ہے یا نہیں کہ آئین کے آرٹیکل 275 کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم جو سروس آف پاکستان میں ہو، اس کی ملازمت کے ٹرمز اینڈ کنڈیشن میں تنخواہ اور دیگر مراعات باقاعدہ درج ہوتی ہیں جنہیں کوئی بھی حکومت اس طرح کے احکامات سے ختم نہیں کرسکتی۔ ہاں نئے ملازمین کے ٹرمز اینڈ کنڈیشنز میں ترامیم کرکے یہ مراعات ختم کی جاسکتی ہیں لیکن جو پہلے سے ملازمین کام کررہے ہیں ان کی مراعات ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔
اس لیے نگراں وزیرِاعظم کا یہ اعلان کوئی معنی نہیں رکھتا اور یہ صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ان کے اردگرد موجود کسی بابو نے ہی ان کو مشورہ دیا ہوگا۔ ویسے تو اس نگراں حکومت کا پاکستان کے اوپر ایک احسان ہوگا اگر یہ ان تمام مراعات کو ختم کردے مگر بظاہر یہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے کیونکہ بجلی کے بلوں کے خلاف عوام تو مظاہرے کر ہی رہے ہیں لیکن اگر مراعات ختم ہونے پر سرکاری ملازمین بھی احتجاج شروع کردیں تو حکومت کے لیے مسائل بڑھ جائیں گے اور یہ حکومت ایسا ہرگز نہیں چاہے گی۔
ان سرکاری مراعات کو تو ایک طرف رکھیں، اگر ہم عدلیہ کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو یہ مراعات peanut لگتی ہیں۔ کس کس محکمے کا رونا روئیں؟ اگر صرف پاکستان کے سرکاری ادارے اپنا کام ایمانداری سے کرنا شروع ہوجائیں تو پاکستان کو کسی ملک یا بین الاقوامی ادارے کے آگے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہم چند سالوں میں ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر ایک خودمختار قوم بن سکتے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2022 تک پاکستان کی مختلف عدالتوں میں تقریباً 2 ہزار 611 ارب روپے مالیت کے 88 ہزار 317 مقدمات زیرِ التوا ہیں جن پر عدالتوں نے اسٹے آرڈر جاری کیے ہوئے ہیں یا دیگر کئی وجوہات کی بنا پر اپنے فیصلے جاری نہیں کیے۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 370 ارب روپے مالیت کے کیسز لاہور ہائیکورٹ، 95 ارب مالیت کے مقدمات سپریم کورٹ، 212 ارب روپے مالیت کے کیسز سندھ ہائیکورٹ، 180 ارب روپے مالیت کے کیسز اسلام آباد ہائیکورٹ، 9 ارب روپے مالیت کے کیسز پشاور ہائیکورٹ میں زیرِ التوا ہیں جبکہ 1513 ارب روپے مالیت کے کیسز ایپلٹ ٹربیونلز میں زیرِالتوا ہیں۔
ذرا سوچیں اگر عدالتیں بروقت فیصلے دے دیں اور پاکستان کے قومی خزانے میں اس کی آدھی رقم بھی سرکاری خزانے تک پہنچ جائے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
پاکستان کے جب وسائل کی طرف دیکھا جائے تو یہ مایوسی ایک امید کی شکل دھار لیتی ہے کہ آج نہیں تو کل ہم ضرور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے اور پاکستان کا شمار بھی ایک ابھرتی ہوئی معیشت میں ہوگا لیکن جب ملک کے اداروں اور اس میں کام کرنے والی اشرافیہ کی طرف دھیان جاتا ہے تو یہ امید کی کرن ایک بار پھر مدہم ہوجاتی ہے کہ ناجانے کب اس قوم کی قسمت بدلے گی۔
اگر پاکستان کو واقعی اس دلدل سے نکالنا ہے اور معاشی مشکلات کو مواقع کی صورت میں ڈھالنا ہے تو بحیثیت قوم ہمیں تہیہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنا کام ایمانداری سے کریں گے پھر چاہے ہمارا تعلق سرکاری محکمے سے ہو یا نجی محکمے سے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی چاہیے کہ سرکاری ملازمین کو دی جانے والی ان تمام مراعات کا جائزہ لیتے ہوئے آئین میں ترمیم بھی کرے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ حکومت مفت گاڑی، پیٹرول، بجلی، سرکاری رہائش، مفت علاج معالجے کی مراعات ختم کرکے ان کی جگہ پیسوں کی صورت ایک پیکج دے دے۔ افسر شاہی اس پر مزاحمت کرے گی لیکن جب تک ایسا نہیں کیا جاتا عوام اور اشرافیہ میں فرق اور دُوریاں برقرار رہیں گی۔
دوسرا حکومت طاقت کے زور پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لائے۔ پچھلی حکومت نے تاجروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوشش کی لیکن ان کے احتجاج کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ جب تک ہم ملک کے اندر طاقتوروں کے آگے گھٹنے ٹیکتے رہیں گے تب تک دنیا کے آگے کشکول اٹھاتے پھریں گے۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ 24 کروڑ آبادی والے ملک میں صرف تقریباً 33 لاکھ ٹیکس دینے والے لوگ ہیں۔ ملک کی بہتری کی خاطر اب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا۔
اسی طرح عدالتوں کو بھی موجودہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے ٹیکس سے متعلق مقدمات میں جلد از جلد فیصلے کرنے ہوں گے۔ ذرا سوچیں کہ اگر ان 2611 ارب روپے مالیت کے مقدمات کے فیصلے ہوجائیں تو پاکستان کو کتنا فائدہ ہوگا۔
مرزا غلاب نے کیا خوب کہا تھا
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
آخرکب تک ہم قرض کی مے پی پی کر فاقہ مستیاں کرتے رہیں گے۔ ملک کو آزاد ہوئے 77 سال ہوگئے۔ اب بھی ہم اپنے حالات خود نہیں بدلیں گے تو یقین مانیں باہر سے ہماری مدد کرنے کوئی نہیں آئے گا۔