طور خم بارڈر: پاکستان، افغانستان کی مرکزی گزر گاہ کب کھلے گی؟

بدھ 13 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں انتہائی اہم اور مصروف سرحدی گزرگاہ طورخم پرحالات بدستور کشیدہ ہیں اورعلاقے میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان متعدد ملاقاتوں کے باوجود گزشتہ ایک ہفتے سے بند اس مرکزی گزرگاہ کو دوبارہ کھولنے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ ان ملاقاتوں میں پاکستان اور افغان طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے سرحدی تنازعہ سے متعلق مطالبات سامنے رکھے گئے مگر تاحال سرحد کھولنے پراتفاق نہ ہو سکا۔ دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان اس ضمن میں جلد ہی ایک اور میٹنگ ہونے کا بھی امکان ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم سرحدی راستے طورخم پر 6ستمبر کو حالات اس وقت خراب ہوئے جب پاکستان کی سکیورٹی فورسزاور افغان طالبان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

اس جھڑپ کی بنیادی وجہ افغان طالبان کی جانب سے سرحدی علاقے میں چیک پوسٹ کی تعمیر تھی۔ پاکستان نے موقف اپنایا ہے چیک پوسٹ کی تعمیر پاکستانی حدود میں ہو رہی تھی اور نشاندہی کے باوجود بھی کام نہیں روکا گیا جس پردونوں ملکوں کی فورسز کے درمیان چھڑپ ہوئی۔

پاکستان نے کہا ہے کہ اس جھڑپ کے فوراً بعد تورخم بارڈر کو بند کیا گیا جو ابھی تک بند ہے اورکسی قسم کی امدورفت کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

مال بردارگاڑیوں کی لمبی قطار

طورخم سرحد بند ہونے سے گزشتہ سات دنوں سے پاک افغان شاہراہ کے دنوں جانب کھڑی مال بردارگاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں جس کے باعث ڈرائیورز اور تاجروں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

افغانستان جانے کے منتظر ڈرائیور احمد خان نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ چھ ستمبر کی رات کو پاک افغان سرحد پر پہنچا تھا اور اس وقت سے سے سرحد کھلنے کا انتظار کر رہا ہے۔

احمد خان کا کہنا تھا کہ وہ خود کنٹینرز کی چوکیداری بھی کرتے ہیں اوراس صورتحال کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اج نہیں کل، کل نہیں تو پرسوں سرحد کو کھولنا ہی ہے، تو پھر آج ہی کیوں نہیں۔

احمد خان نے پاکستان اور افغان حکام سے جلد سرحد کھولنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ حکام کو کم از کم غریبوں کاسوچنا چاہیے، دنوں جانب مسافر تکلیف میں ہیں، کاروبار کے علاوہ دونوں جانب حکومتوں کا بھی نقصان ہورہا ہے۔

سرحدی بندش کے باعث مسافروں کے علاوہ پاک افغان تجارت سے وابستہ تاجر بھی پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرحد کی بندش سے نقصان ہمیشہ تجارت کو ہی پہنچا ہے اور اس جانب دونوں حکومتوں کی توجہ کم ہے۔

کاروبار کے ساتھ دنوں جانب حکومتوں کا بھی نقصان ہو رہا ہے

پاک افغان تجارت سے وابستہ پشاور کے تاجر منظور الہی کہتے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے بجائے اس کو کم کیا جا رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔

منظور الہی کے مطابق سرحدی بندش سے اصل نقصان حکومت کا ہورہا ہے، طورخم بارڈر مصروف ترین گرزگاہ ہے اوراس مد میں کسٹمز کو روزانہ کم ازکم 60 لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

طوررخم سے افغانستان کے علاوہ روس کے ساتھ بھی تجارت ہوتی ہے

منظور الہی نے بتایا کہ عام تاثر ہے کہ طورخم سرحد سے صرف افغانستان کے ساتھ ہی تجارت ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کیونکہ اس سرحد کے ذریعے روس سے بھی تجارت ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ طورخم انتہائی اہم سرحد ہے جس کے ذریعے پاکستانی مال چار سے پانچ مملک پہنچتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی بندرگاہ اورملک کے دوسرے حصوں سے مال طور خم بارڈرسے افغانستان، ازبکستان، تاجکستان اور روس تک جاتا ہے۔

منظور الہی نے مزید بتایا کہ پاکستان سے افغان شہرمزارشریف تک کنٹینرز کے زریعے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین یہ مال 4 سے 5 دن میں روس پہنچ جاتا ہے، اسی طرح وہاں سے مال پاکستان آتا ہے ۔

پاکستان سے کونسی اشیاء افغانستان جاتی ہیں؟

منظور الہی کے مطابق پاکستانی مال کی افغانستان میں بڑی مانگ ہے اورکئی اقسام کی اشیاء افغانستان برآمد کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے پھل خصوصاً آم اور مالٹا افغانستان افغانستان بھیجا جاتا ہے، اس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں، بچوں کا سامان، بسکٹ، جوسز اور دیگر سامان بھی افغانستان جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب افغانستان میں فیکٹریاں لگ چکی ہیں جس سے پاکستانی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

افغانستان سے کون سے مال پاکستان آتا ہے؟

منظور الہی کے مطابق افغانستان سے بڑے پیمانے پر اشیاء پاکستان آتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی زمین زرخیز ہے اور پھل اور سبزیوں کے لئے مشہور ہے، وہاں سے ہر سیزن میں تازہ پھل اور سبزیاں پاکستان آتی ہیں۔

منظور الہی نے مزید بتایا کہ افغانستان سے آج کل ٹماٹر، انگوراور سیب کی فراہمی کی جا رہی ہے لیکن سرحد کی بندش سے وہاں کے تاجروں کو نقصان اٹھانا پڑرہا ہے کیونکہ مال خراب ہو گیا ہے اور سرحد سے پھل اورسبزیوں کی گاڑیوں کو مجبوراً واپس جانا پڑ رہا ہے۔

بیماروں کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوا ہے

افغانستان میں علاج کی سہولیات کے فقدان کے باعث وہاں کے مریض بہترعلاج معالجے کے لئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں، ان کی سہولت کے لئے بارڈر پر پاکستان کی جانب سے اسپتال بھی قائم کیا گیا ہے جہاں ابتدائی معائنے کے بعد ریفر کیا جاتا ہے۔

حالیہ سرحد بندش سے بیمار افراد سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں جو علاج کے لئے پاکستان اورعلاج کے بعد واپس جانے کے لیے دونوں جانب سرحد کھلنے کا انتطار کر رہے ہیں۔

حسن ابراہمی کا تعلق افغانستان کے شہر کابل سے ہے، وہ اپنے بھائی کے ساتھ علاج کے لئے پشاور آئے تھے اور اب سرحد بند ہونے کی وجہ سے پھنس گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سرحد بندش سے وہ مجبوراً پشاورکے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہیں جبکہ وہ معاشی طور پر اتنے مضبوط نہیں کہ وہاں زیادہ عرصہ قیام کر سکیں، وہ صرف سرحد کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ واپس اپنے ملک جا سکیں۔

سات سالہ بیٹے کی میت افغانستان لے جانے کے منتظر والدین

افغانستان کے شہر ننگرہار سے تعلق رکھنے والے گل نبی اپنے اکلوتے بیٹے کو بہتر علاج کے لئے پشاور لے کر ائے تھے جو دوران علاج وفات پاگیا۔

گل نبی اور اس کی اہلیہ اپنے بیٹے کی میت لے کرافغانستان جا رہے تھے اور اسی دوران طورخم بارڈر بند ہو گیا۔ انہوں نے بارڈر کھلنے کا انتظار کیا مگر جب کوئی امید نظر نہیں آئی تو تو بیٹے کی میت کو واپس پشاور لے کر آگئے۔

گل نبی کے مطابق ان کی معاشی حالت بھی خراب ہے اوردوست کے کسی جاننے والے کے گھر رہ رہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ جلد واپس اپنے ملک جا کر بیٹے کو سپردخاک کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp