نوازشریف کی واپسی یعنی میگا پراجیکٹ کی واپسی؟

جمعرات 14 ستمبر 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نوازشریف اب واپس آ رہے ہیں، ایک نِکے پٹواری کے بقول بُرے وقت کی طرح واپس آ رہے ہیں۔ انگریزی محاورہ ہے کہ آفت اکیلی نہیں آتی یہ تین تین کی صورت میں آتی ہے۔ تو پٹواری بھی نواز مخالفوں کو اسی بُرے وقت سے ڈرانے کو ایسا کہتا ہے۔ اس وقت مسلم لیگی لیڈر بری طرح ڈرے ہوئے ہیں۔ اپنی ڈیڑھ سالہ حکومتی کارکردگی اور کپتان کی مقبولیت نے ان کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ الیکشن مہم میں جاتے انہیں عوامی ردعمل سے ہول اٹھ رہے ہیں۔

ہمارے اسی پٹواری کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اگر پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور جہانگیر ترین اتحاد بھی کر لیں تو نوازشریف سب کو عبرتناک شکست دیں گے۔ اس بھائی کا کانفیڈنس چیک کریں۔ اس کانفیڈنس پر انعام دینا بنتا ہے۔

کپتان کے خلاف ابھی عدم اعتماد نہیں آئی تھی، جنرل باجوہ کے لندن میں ان ڈائریکٹ رابطے جاری تھے۔ کپتان سے سچے پیار کا بخار اتر چکا تھا۔ ان مذاکرات میں بہت وقت اسی پر صرف ہوتا رہا کہ تبدیلی کے بعد کس کا کیا اختیار ہو گا۔ سول کا ڈومین کیا ہو گا اور پنڈی کی مشاورت یا مداخلت کتنی ہو گی۔ پی ڈی ایم حکومت دیکھنے کے بعد یہ باتیں اب مذاق لگتی ہیں۔ میاں محمد شہباز شریف نے جس طرح ٹیوب ویل کے افتتاح کا بھی کریڈٹ حافظ صاحب کو دینے کی پوری کوشش کی وہ دیکھ کر نہیں لگتا کہ ایسی کوئی بات ہوئی ہو گی۔

آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت نوازشریف کی ترجیح صرف ایک تھی چیف ایسا ہو جو پریشر لے سکے اور امن و امان کی صورتحال کو بحال کرے، دہشت گردی کو ختم کرے۔ جب آپ میں یا کوئی بھی عام آدمی سیکیورٹی صورتحال پر تبصرے کرتے اپنا غصہ ظاہر کرتا ہے اسے فتنہ، فساد، نااہلی اور کچھ بھی کہتا ہے تو یہ سب باتیں بس غصہ ہی ہوتی ہیں۔

جب جنرل عاصم منیر ایک کو فتنہ اور دوسرے کو خوارج کہتے ہیں تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ حافظ بھی ہیں اور عربی کی بھی اچھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ جب وہ عربی اور قرانی ٹرم استمعال کر رہے ہیں تو پھر علاج بھی وہیں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ فتنہ فساد بارے قران میں کیا کہا گیا ہے وہ خود ہی ڈھونڈ کر پڑھ لیں۔ آپ بھی چپ کر کے امید باندھ لیں گے کہ شاید اب علاج ہو گا۔

کابل میں افغان طالبان کی حکومت کو 2 سال ہو چکے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ سابق افغان حکومت کے عہدیدار لندن میں نوازشریف سے ملنے پہنچے۔ اس کی تصویر اور خبر بھی آئی، یہ لوگ پاکستان مخالف بیان بازی بھی کرتے تھے۔ افغان طالبان کے حوالے سے ان 2 سالوں میں نوازشریف کی جانب سے ایک لفظ نہیں کہا گیا۔ افغان ذرائع کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے قریبی تعلقات ہوتے تھے مگر اب نہیں ہیں۔ اس معاملے پر اگر ہم دیکھیں تو نوازشریف کا موقف ویسٹ اور یو ایس سے الائنمنٹ میں ہے۔ اس موقع پر کپتان کے غلامی کی زنجیریں توڑنے والے بیان کو یاد کر لیں، سیاسی مصالحہ بڑھ جائے گا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چترال میں افغانستان کی طرف سے آ کر ٹی ٹی پی نے ایک کارروائی کی ہے، اس کے بعد سے طورخم باڈر بند ہے، افغانستان جانے والے آئٹم چینی، گندم، کھاد سب کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ کرنسی ڈیلروں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت کم ہو رہی ہے اور افغانستان میں چڑھ رہی ہے۔

جب ہم ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر برقرار رکھنے کی اسحاق ڈار کی کوشش پر تنقید کرتے ہیں، آئی ایم ایف والے ڈار کے لتے لیتے ہیں، تب ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ اسحاق ڈار نہیں ہیں، یہ نوازشریف ہیں جو روپے کی قیمت کے حوالے سے حساس ہیں۔ روپیہ جب فری فال انداز میں بلندی سے نیچے چھلانگ مار کے گرنے لگتا ہے تو ہم سب کی طرح نوازشریف کو بھی برا لگتا ہے۔

ہمارے اسی نکے پٹواری کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی خواہش ہے کہ بینک ڈالر مہنگا خریدیں۔ اوپن مارکیٹ سے زیادہ ریٹ دیں، جب ایسا ہونے لگے گا تو حوالے کی بجائے بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے ڈالر آئیں گے۔ یہ ایک اقدام ترسیلات میں حیران کن اضافہ کر دے گا۔ ادائیگیوں کا توازن بہت بہتر ہو جائے گا۔ کرنسی ڈیلروں کے خلاف جاری آپریشن سے ڈالر اوپن مارکیٹ میں انٹر بینک سے سستا ہو گیا ہے۔ جو کام ہم خود سے نہیں کر رہے تھے وہ حالات نے ہم سے کروا دیے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ذہنی طور پنڈی اور نوازشریف مزید قریب بھی آ گئے۔

نوازشریف کو ابھی قانونی مسائل کا سامنا ہے۔ الیکشن کے لیے اہل ہونے کے ایک عمل سے گزرنا ہے۔ ان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور حکومت گرانے کے ذمہ دار تھے وہ معافی مانگیں یا ان کے خلاف کارروائی ہو۔ ابھی تک تو یہ کارروائی صرف ہمارے سوہنے کپتان کے خلاف ہی ہوئی ہے۔ وہ اندر بیٹھا ہے اور باہر اس کی مقبولیت بڑھ گئی ہے، اندر جانے کے لیے اس نے محنت بھی بہت کی۔ جو باقی ذمہ دار تھے مائی لارڈ اور مائی گارڈ ان کی طرف سے ڈھکی چھپی معافی یا ان کے خلاف کھلی کاروائی ہو گی؟۔ اگر نہ ہوئی تو ان کے نام اور کام پھر الیکشن مہم اچھلتے دکھائی دیں گے۔

نوازشریف جتنے زور سے واپسی کریں گے اتنے ہی رفتار سے وہ کام وہیں سے شروع کر سکیں گے جہاں سے چھوڑا تھا۔ میگا پراجیکٹس، ریجنل کنیکٹیوٹی، ٹریڈ اور انرجی روٹس کی تعمیر۔

مستند خبروں، ویڈیوز اور تجزیوں کے لیے وی نیوز کا واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp