خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع بٹگرام میں 22 اگست کو چئیرلفٹ کی رسی ٹوٹنے سے ہوا میں 15 گھنٹوں سے زیادہ دیر معلق رہنے والے طلبا کامیاب ریسیکو اپریشن کے بعد موت کے منہ سے واپس انے کے بعد توبہ کی تھی کہ آئندہ ایسی لفٹ میں کبھی سوار نہیں ہوں گے لیکن اب اس سہولت سے استفادہ نہ کرنے کے باعث انہیں سخت مشکل کا بھی سامبنا ہے۔
خیبر پختونخوا کے اکثر پہاڑی اور دور افتادہ علاقوں میں روڈ اور پل نہ ہونے کی وجہ سے چیئر لفٹ یا ڈولی علاقہ مکینوں کے لیے ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے گھنٹوں کا فاصلہ صرف چند منٹ میں ہی طے ہوجاتا ہے۔ صوبے کے پہاڑی علاقوں میں ایک گاؤں سے دوسرے یا مرکزی سڑک تک ڈولی کا استعمال کیا جاتا ہے جو مقامی افراد ہی آپریٹ کرتے ہیں۔
گزشتہ ماہ بٹگرام کے پہاڑی علاقے الائی پاشتو میں ڈولی بالکل درمیان سے کیبل ٹوٹنے کے باعث تقربیا 900 فٹ بلندی پر ہوا میں لٹک گئی تھی۔ لفٹ میں ایک شخص کے علاوہ اسکول جانے والے 7 بچے بھی پھنس گئے تھے۔ انہیں نکالنے کے لیے ابتدائی طور پر ارمی نے ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن شروع کیا تھا اور رات 11بجے تقربیا 15 گھنٹے طویل اپریشن کے بعد تمام پھنسے ہوئے افراد کو بحفاظت نکل لیا گیا تھا۔ تاہم پاشتو کی واحد چیئر لفٹ تاحال خراب ہے جس کی بحالی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں جس کے باعث وہاں کے مکینوں کی مشکلات بڑھ گئیں ہیں اور انہیں بازار یا اسکول انے کے لیے 2 سے ڈھائی گھنٹے کا تکلیف دہ پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
سڑکوں، پلوں، ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں چیئر لفٹ ایک نعمت
تحصیل الائی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن فدا خان کے مطابق پاشتو ڈولی حادثے کے بعد ہزارہ ڈویژن میں چیئرلفٹ کے خلاف کارروائیاں ہوئیں اور بیشتر کو ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے بند کرا دیا جس کی وجہ سے پہاڑی علاقوں کے مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
فدا خان نے بتایا کہ اکثر علاقوں میں ڈولی میں سفر مکینوں کی مجبوری ہے کیونکہ دور دراز گاؤں کے لیے روڈ اور نالیوں کے اوپر پل نہیں ہیں جس کی وجہ سے ڈولی آسان سہولت ہے جس میں گھنٹوں کا تکلیف دہ سفر چند منٹوں طے ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں ہر ایک کے پاس گاڑی نہیں ہوتی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کی نسبت ڈولی سستی بھی ہے اور وقت بھی کم لکتا ہے۔
اسکول کے بچے سب سے زیادہ متاثر
فداخان نے بتایا پاشتو واقعے کے بعد چیئر لفٹس کو بند کرنے سے سب سے زیادہ اسکول جانے والے بچے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاشتو گاؤں میں چیئر لفٹ بچوں کے لیے بڑی سہولت تھی جسے استعمال کرکے بمشکل 8 منٹ میں مین روڈ تک پہنچ جاسکتا تھا لیکن اب لفٹ کے بغیر وہی فاصلہ طے کرنے کے لیے انہیں ڈھائی سے 3 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاشتو میں اب بچے پیدل اسکول آتے ہیں جو کافی مشکل، تکلیف دہ اور وقت طلب ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بارشوں کے دوران نالے میں سیلاب یا تودہ گرنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
الائی کے ایک سرکاری اسکول کے استاد نے بتایا کہ ڈولی واقعے کے بعد اسکول میں حاضری پر اثر پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دور دراز سے بچوں کو آنے میں دقت ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے بچے غیر حاضر بھی رہنے لگے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈھائی سے 3 گھنٹے اسکول آنے اور تقربیا اتنا ہی وقت واپس گھر پہنچنے میں لگ جاتا ہے جس سے بچوں کی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے اور اسکول باقائدگی سے نہ آسکنے کے باعث ان کی تعلیم کا بھی حرج ہو رہا ہے جس کی طرف ارباب اختیار کی توجہ نہیں جا رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈولی بندش سے تعلیم اور بچوں کی صحت دونوں پر برا اثر پڑ رہا ہے۔
چیئر لفٹس کے خلاف کریک ڈاؤن
بٹگرام واقعے کے فوراً بعد ہی خیبر پختونخوا حکومت نے تمام ضلعی انتظامیہ کو مراسلہ ارسال کرکے چیئرلفٹس کی تفصیلات اور حالت زار کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی اور ساتھ ہی خراب حالت والی تمام ڈولیوں کی سروس بند کردینے کا حکم دیا تھا جس کے بعد تمام اضلاع میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس سرگرم ہو گئی اور مختلف اضلاع میں اکثر چیئرلفٹس کی حالت کو خراب قرار دے کر بند کردیا گیا۔
فدا خان کے مطابق سب سے زیادہ لفٹس ہزارہ ڈویژن میں بند کی گئیں۔ انہوں بتایا کہ اباسین میں 8 سے زائد لفٹس کو بند کیا گیا ہے جبکہ بشام میں بھی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے ان لفٹس کو ضروری مرمت کے بعد دوبارہ کھول دیا جائے گا لیکن اب تک اس پر کوئی عمل درامد نہیں ہوا ہے۔
روڈ اور پل دو چیئر لفٹس ختم کرو
فدا خان نے موقف اپنایا کہ پہاڑی علاقوں میں ڈولی مجبوری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں جہاں ڈولی کا استعمال ہوتا ہے حکومت ان علاقوں میں روڈ اور پل تعمیر کردے اور اس کے بعد بیشک ڈولی سروس مکمل طور پر ختم کرے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر روڈ اور پل کے ڈولی کو بند کرنا مقامی افراد کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت دور افتادہ علاقوں میں سہولیات کی فراہمی پر بھی توجہ دے تاکہ ان کی زندگی میں بھی آسانیاں ہوں۔
اکثر چیئر لفٹس کی حالت دگردگوں
بٹگرام واقعے کے بعد ہی چیئرلفٹس کے خلاف کارروائیاں ہوئیں۔ ایک سرکاری عہدیدار نے وی نیوز کو بتایا کہ واقعے کے اگلے روز بالاکوٹ میں 3 چیئر لفٹس کو بند کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ معائنے کے دوران پتا چلا کہ ڈولی حالت انتہائی خراب حالت میں تھیں جبکہ کیبل بھی بوسیدہ اور پرانی تھی جو کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں چیئرلفٹس کے مالک بھی مقامی لوگ ہوتے ہیں اور یہ آپریشن مکمل پرائیوٹ ہوتا ہے اور اس سروس کے لیے کرایہ وصول کیا جاتا ہے لیکن وہ پرائیویٹ افراد لفٹس کی مرمت نہیں کرتے۔
سرکاری عہیدیدار کا کہنا تھا کہ اب حکومت ان پر مکمل چیک اینڈ بیلنس رکھے گی اور خراب اور بوسیدہ چیئر لفٹس کو بند کردیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک درجنوں چیئر لفٹس کو بند کیا گیا ہے اور انہیں اس وقت تک کھولنے کی اجازت نہیں ہو گی جب تک مکمل مرمت کرکے بہتر نہیں بنایا جائے گا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ چیئر لفٹس بند کرنے سے دور افتادہ مکینوں کو تکلیف ہے تاہم خراب ڈولی کی وجہ سے کسی حادثے کی صورت میں قمیتی جانیں ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے اور جانوں کی حفاظت حکومت کی ترجیح ہے۔