’’ظالمو! قاضی آگیا ہے‘‘

ہفتہ 16 ستمبر 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ریاست جن ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے ان میں ایک عدلیہ بھی ہے۔ جس میں بیٹھے ججز آئین کے محافظ ہیں۔ جن سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ذاتی عناد اور خواہشات سے بالکل ماورا ہو کر آئین و قوانین کے مطابق فیصلے دیں گے، لیکن ایسا شاید اب کتابوں میں ہی ہوتا ہوگا۔ اب عدالتوں پر بھی سیاسی ہونے کا الزام لگتا ہے اور عدالتیں سیاسی ہوجائیں تو ریاستیں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔

پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ کوئی بہت اچھی نہیں رہی ہے۔ بلکہ اس پر الزام یہ لگتا ہے کہ ریاست کا وہ ستون بن کر رہ گیا ہےجس نے اس ملک کی سمت غلط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نظریہ ضرورت کے نتیجے میں ملک اس راستے پر چل پڑا کہ اب تک بھٹکتے پھررہے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ آغاز تھا اور بعد میں اس نے ہمیشہ آمروں اور من پسند سیاسی جماعتوں کو قانونی چھتری مہیا کی ہے۔ اس کے لیےقلم کی نوک سے غیر آئینی طریقے اختیار کیے گئے ۔

الزام لگتا ہے کہ ایسی ہی ایک سیاسی عدالت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی بھی تھی۔ ان کے’’سنہری دور‘‘ کو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کیونکہ اپنے19ماہ کے دور میں انہوں نے سیاسی فیصلے کر کےقوانین کوجس طرح ردی کی ٹوکری میں پھینکا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آرٹیکل63A کی تشریح کا معاملہ ہو ۔پنجاب، کے پی انتخابات کا متنازع معاملہ ہو یا پنجاب اسمبلی اسپیکر رولنگ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ ۔ان کا دور ہر لحاظ سے تنازعات سے بھرپور رہا ۔

گڈ ٹو سی‘ یو نے تو ایسا سماں باندھا کہ اب وہ ایک استعارہ بن چکا ہے۔ الزام یہ لگتا ہے اور شاید درست لگتا ہے کہ چیف صاحب ایک سیاسی جماعت کےحق میں اتنا آگے نکل گئے کہ انہیں اپنے منصب’ اور کرسی کا خیال تک نہ رہا۔ کچھ اور سجھائی نہ دے تو ہزیمت ہی مقدر بنتی ہے۔ کبھی الفاظ تو کبھی اپنے انداز سے سیاسی مقدمات میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلوں نے چیف صاحب کی اپنی قانونی اور آئینی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے۔

تحریک انصاف نے جب جب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کبھی خود کو مایوس نہیں پایا۔ بندیال صاحب نے ہمیشہ ہی انہیں آسرا کرایا اور منہ کے بل گرنے سے بچایا۔ غیر سیاسی عدلیہ کے سیاسی جج نے کبھی ’انتظارِ یار‘ کر کے تو کبھی ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر تحریک انصاف سے داد اور اپوزیشن اور عوام سے خوب تنقید سمیٹی۔

فیض احمد فیض نے نجانے کس کے لیے کہا تھا

جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو

جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو

خیر صاحب اقتدار اور خواہشات کی خاطرتو انصاف کا پلڑا ہمیشہ جھکتا آیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئینی تقاضوں کو اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو ڈیل کیاوہ بھی سب کے سامنے ہے۔ آڈیو لیکس کے معاملے پر اعتراضات کے باوجود خود کو بینچ سے الگ نہ کیا۔ ’مدر اِن لا‘ کی آڈیو لیک پر انصاف کے اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر حکومتی انکوائری کمیشن کو ختم کرا دیا گیا۔ ”خود ہی مدعی، خود ہی گواہ، خود ہی منصف، خود ہی جلاد“۔

آئین کیا ہےاوراسے کس نے اور کیوں بنایا؟ جب عدل کے ایوانوں میں بیٹھے ’’سیاسی کردار‘‘ ہی یہ بات بھول جائیں،اورآئین کے محافظ ہی آئین شکنی کر کے سیاست میں دلچسپی لینے لگیں تو عام عوام اپنا دُکھڑا کہاں سنائیں گے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت میں مقدمات 56 ہزار سے زائد ہوچکے ہیں۔

کہتے ہیں پہلی غلطی نہ سدھاری جائے تو وہ بہت ساری غلطیوں کا باعث بنتی ہے اور عطا بندیال صاحب نے پہلی غلطی ٹھیک کرنے کی بجائے غلطی پر غلطی کی روایت دہرائی۔عدلیہ جب انصاف کا دامن چھوڑ کر متنازع فیصلے کرنے لگ جائے تو ان پر انگلیاں اٹھتی ہیں ۔ایسی ہی انگلیاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال پربھی اٹھیں۔ یہاں تک کے ان کے اپنے ساتھی ججوں کو ان سے اختلاف رہا۔ کہیں چیف جسٹس کے بینچ بنانے اورکبھی سوموٹو نوٹس لینے کے اختیارات پر اعتراض اُٹھایا گیا، ان کے فیصلوں کے خلاف فیصلے بھی دیے۔ لیکن کان پر جوں تک نہ رینگی، تحریک انصاف کے معاملے میں تو کئی مواقع پر صورتِ حال یہ بنی کہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال ملتی ہو۔

عمر عطا بندیال نے یک طرفہ حکم صادر کرنے کے شوق میں ہر حد سے گزر جانے کو ترجیح دی۔ ججز کی گروہ بندی بھی انہی کے دور میں شروع ہوئی۔ لیکن انہوں نے کبھی اسے ختم کرنے کی کوشش نہ کی۔ ختم کرتے بھی کیسے، جب ہر معاملہ اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق کرنے کی خواہش ہوتی ہو۔

اب چیف صاحب جارہے ہیں۔ کیا وراثت چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اس کے لیے تاریخ میں جانے کی ضرورت نہیں۔ تاریخ اپنا فیصلہ سناچکی۔ جب اس اعلیٰ ترین عدالت کی کرسی پر بیٹھے شخص کی موجودگی میں بات کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس کے ہوتے ہوئے انہیں بہت سی سننا پڑیں اور جب جارہے ہیں تو اس کے بعد بھی یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں بہت اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جائے گا۔

لیکن سب سے بڑا امتحان اب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج جناب قاضی فائز عیسیٰ کا ہوگا۔ جن کے کردار پر اب تک کوئی اُنگلی نہیں اُٹھاسکا۔ ”قاضی آرہا ہے“ سے ”قاضی جارہا ہے“ تک کا سفر وہ کیسے طے کرتے ہیں، وہ تاریخ میں اپنا نام کیا لکھواتے ہیں، یہ جلد طے ہوجائے گا۔

مستند خبروں، ویڈیوز اور تجزیوں کے لیے وی نیوز کا واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp