نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں پر سیکیورٹی کی صورت حال کے پیش نظرعام انتخابات میں تاخیر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ فی الحال مجھے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ انتخابات میں تاخیر کی وجہ سرحدوں پر سیکیورٹی کے مسائل ہیں۔
ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابی عمل کو مکمل کریں گے، وزیر اعظم
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہماری مغربی اور مشرقی سرحدوں پر صورت حال تشویش ناک ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم صورت حال پر قابو پا لیں گے اورایک ہی وقت میں انتخابی عمل کو مکمل کریں گے۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) فوری انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔
الیکشن کمیشن نے 2023 کی نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کے نوٹیفکیشن اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 17 (2) کی بنیاد پر انتخابات 9 نومبر سے آگے ملتوی کرنے کے اپنے فیصلے کی وجہ بتائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ‘کمیشن ہر مردم شماری کے باضابطہ طور پر شائع ہونے کے بعد حلقہ بندیاں مکمل کرے گا۔
صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے بھی الیکشن کمیشن کو 6 نومبر تک عام انتخابات کرانے کی تجویزدی ہے۔
یہ بھی پڑھیں عوام کے لیے محفوظ ماحول برقرار رکھنا اولین ترجیح ہے، نگراں وزیر اعظم
قبل ازیں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کو انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے اجلاس میں مدعو کیا تھا۔ تاہم چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن ایکٹ 2017 میں حالیہ ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے اس دعوت کو مسترد کردیا جس کے تحت الیکشن کمیشن کو صدر سے مشورہ کیے بغیر یک طرفہ طورپرانتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے کا اختیاردیا گیا ہے۔
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا بھی یہی مؤقف رہا ہے اور وہ مختلف مواقعوں پر کہہ بھی چکے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا تعین اور انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے اور نگران حکومت کا کام صرف کمیشن کی مدد کرنا ہے۔
امریکی ریڈیو کو دیے گئے انٹرویو میں جب وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ نگراں حکومت انتخابات سے متعلق قیاس آرائیوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے تو انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ نگران حکومت کو مداخلت کرنی چاہیے اور انتخابات میں التوا جیسی قیاس آرائیوں کو دور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر قانون اور آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اس کام کو خلوص نیت سے انجام دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اقتدار کو طول دینے کا امکان مسترد کر دیا
انہوں نے کہا کہ ’ الیکشن کمیشن نے پہلے ہی انتخابات کے انعقاد کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں جس کے لیے وہ کچھ آئینی تقاضے پورے کر رہے ہیں، جو شاید حد بندی سے متعلق ہیں اور وہ جلد ہی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
نگراں وزیر اعظم نے یہ بھی یقین دلایا کہ عبوری حکومت انتخابات کے انعقاد کے لیے امداد کی فراہمی کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق نگراں حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور جہاں بھی ضرورت ہو روزانہ کی بنیاد پر مدد بھی فراہم کرتی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اگر سپریم کورٹ 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا فیصلہ دیتی ہے تو کیا نگراں حکومت کوئی اعتراض اٹھائے گی؟، تو انہوں نے اپنے مؤقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ ایسا کوئی اعتراض عبوری حکومت نہیں اٹھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے اور عبوری حکومت انتخابات کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔
ضرورت پڑنے پر دفاع کے لیے کوئی بھی کارروائی کریں گے
جب ان سے پوچھا گیا کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر کیا افغانستان میں سرجیکل اسٹرائیک اور ڈرون حملوں کا کوئی آپشن موجود ہے تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ جہاں کہیں بھی ہمیں اپنی زمین اور لوگوں کی حفاظت کے لیے کارروائی کی ضرورت محسوس ہوگی، ہم کارروائی کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں ان آپریشنل فیصلوں کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا جو پاکستان لے سکتا ہے۔ لیکن جب کسی خطرے کی وجہ سے ضرورت پڑے گی، تو ہم اس کے مطابق فیصلے کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے مفادات اولین ترجیح ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ افغان طالبان پاکستان کے مطالبات سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد بھی پڑوسی ملک کے حکمرانوں سے کوئی خاص مطالبہ نہیں کر رہا ہے۔
طالبان کو دوحہ معاہدے کی پاسداری کرنی چاہییے
وزیراعظم نے دوحہ معاہدے کا حوالہ دیا جس کے تحت طالبان نے افغان سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاق کیا تھا اور ان کا ماننا ہے کہ افغان طالبان بھی اس بات پر قائل ہیں کہ خطے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط اور دوستانہ تعلقات کے لیے اس معاہدے کی پاسداری ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کرنے کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، ہم اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور انسانی حقوق کے فورمز پر اس کردار پر مصروف عمل بھی ہیں جس کی ہم دوسرے فریق سے بھی توقع رکھتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں بھی بہتری آرہی ہے۔
پاکستان عالمی سطح پر کبھی تنہا نہیں ہو گا
نگراں وزیر اعظم نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ خلیجی ممالک اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے بعد پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومیں مفادات کو دیکھ کر کسی عالمی اتحاد اور مفادات کو ہی دیکھ کر ٹکراؤ کی پوزیشن لیتی ہیں اور عالمی سطح پر بننے والے بلاکوں میں شامل ہوتی ہیں یا ان سے دور چلی جاتی ہیں۔
بھارت تا مشرق وسطیٰ راہداری میں خلیجی ممالک کے اپنے مفادات ہیں
انہوں نے کہا کہ اسی طرح کی صورت حال خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے بارے میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔ ’انہوں نے مزید کہا کہ جی سی سی بڑی مقدار میں ہائیڈرو کاربن برآمد کر رہا ہے‘۔
انہوں نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی بندر گاہوں اور ریلوے راہداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا نہیں لگتا کہ یہ منصوبہ پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے لیے کوئی مسئلہ پیدا کرے گا۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا خلیجی ممالک 1.5 بلین چینیوں پر مشتمل ایکسپورٹ مارکیٹ پر سمجھوتہ کریں گے اور ایک ایسے بلاک میں شامل ہوجائیں گے جس کا ابھی محض تصور کیا جارہا ہے؟ ۔
پاکستان تنازع کشمیر کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھاتا رہے گا
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حل نہ ہونے والے ایجنڈا آئٹمز میں جموں کشمیر کاتنازع سب سے پرانا ہے اور پاکستان بھارت کے غیر قانونی طور پرزیرقبضہ مقبوضہ جموں کشمیر کے تنازع کو تمام عالمی اورعلاقائی فورمز پر اٹھاتا رہے گا۔
مقبوضہ کشمیرکی صورتحال کا ذکرکرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیرمیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی قابض افواج نے پورے علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ کشمیریوں کی آوازکو دبایا جارہاہے ۔
انتخابات سے متعلق بعض افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مینڈیٹ ہے اور الیکشن کمیشن نے اس حوالہ سے بعض اقدامات بھی کیے ہیں، ہمیں امید ہے کہ الیکشن کمیشن اس عمل کو ایمانداری سے مکمل کرے گا ۔