چلتے پھرتے اکثر لوگ اپنے تجربے کی بنیاد پر ’تھانے، کچہری اور اسپتال‘ سے بچنے کی دعا کرتے رہتے ہیں کیونکہ جو زندگی میں کسی بھی وجہ سے اگر آپ عدالتی چکر میں پھنس جائیں تو کئی برس مقدمہ بازی کی نذر ہوجاتے ہیں اور معاملہ سلجھنا تو دور کی بات ختم ہوتا بھی نظر نہیں آتا۔
کراچی کی سٹی کورٹ کم و بیش 180 مختلف عدالتوں پر مشتمل ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر پیش ہوتے ہیں، جہاں عملے سمیت جج صاحبان اور وکلاء سب کا ہدف یہی ہوتا ہے کہ سماعت اور پیشی نمٹا کر نکلا جائے۔
دوسری جانب جیل میں غیر قانونی طور پر رائج ’پیسہ پھینک، تماشہ دیکھ‘ نظام کے اثرات عدالتوں میں بھی بہت نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی گرفتار ملزم بے بس ہو جائے تو کیا کرے؟
گزشتہ روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالحفیظ لاشاری کی عدالت میں منشیات رکھنے کے مقدمہ میں نامزد ایک ملزم کو پیش کیا گیا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق ملزم کو منشیات رکھنے کے کیس میں سزا سنائی جانی تھی، ملزم کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے پہلے جج کی طرف جوتا اچھالا اور اس کے بعد اطمینان سے کہا کہ اب سزا سنائیں۔
ملزم کی جانب سے جوتا اچھالنے کی اس حرکت پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ملزم تسلیم کو 6 ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔