قبائلی پشتون ہونے کے ناتے افغانستان ہمیشہ سے ہمارے ذہنوں اور یادوں میں رہا حالانکہ اس سے وابستہ یادیں خوشگوار بھی نہیں تھیں۔ بچپن کی یاداشتوں کی گٹھڑی ٹٹولی تو وہاں بھی افغانستان بارے ناخوشگوار تاثرات ملے۔ پاک افغان تعلقات میں ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ہمیشہ سے موجود تھا اور جب کبھی افغانستان کے اس دعوے کو دہرایا جاتا کہ اٹک تک کا علاقہ اُن کا ہے تو سخت ذہنی کوفت ہوتی۔ البتہ کئی برسوں بعد افغانستان کے لیے ہمدردیاں بڑھیں جب ہمیں بھی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، آپریشنوں میں بے گناہوں کو مرتے دیکھا اور اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔
ہمارے تاثرات کے ان دو مختلف ادوار کے درمیان بھی ایک دور گزرا جب ہمیں قومی اخبارات و جرائد سے یہ باور ہوا کہ افغانستان میں عالم ِاسلام کی لڑائی لڑی جارہی ہے اور “افغان باقی، کُہسار باقی”۔۔۔ “اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ” کے نعرے دلوں میں گھر کر گئے۔ وقت کے ساتھ جذبات کا یہ سلسلہ بدلتا رہا اور نائن الیون کے بعد “سب سے پہلے پاکستان ” اور پھر عمران خان کا مشہورِ زمانہ “غلامی کی زنجیریں توڑ دیں” کے نعرے کانوں میں گونجتے رہے۔
15 آگست 2021 کو طالبان کی طرف سے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان میں ایک ایسی خوشی منائی جارہی تھی جس کے لئے گراؤنڈ پر کچھ نہیں تھا ۔ ان بے بنیاد اور کھوکھلے خوشی کے شادیانوں پر ہم جیسے سوال اٹھانے والوں پر طنز اور گالیوں کے تیر برسائے گئے۔ حالانکہ اس ساری کہانی سے ہمیں کچھ خاص خوشی نہیں تھی مگر ایک امید جاگی تھی کہ شاید اب ہمیں انعام میں امن اور اس خطے میں استحکام آئے۔
اُن دنوں بھی ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ خوشی وقتی ثابت ہو سکتی ہے لیکن رائے عامہ ہماری سوچ کے برعکس تھی ۔ ایسے میں خاموش امیدیں جنم لے سکتی ہیں جنہوں نے ہمارے دل میں بھی انگڑائیاں لیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں ۔ اس لیے ہم گزرے ہوئے کل پر کفِ افسوس ملنے کے بجائے آج کی بات کریں گے ، آنے والے کل کی بات کریں گے۔
اس وقت پاکستان میں وہی رائے عامہ تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہی ہے جو کبھی صرف اس نتیجے پر پہنچی ہوتی تھی کہ افغانستان ہمارا ہے۔ موجودہ حالات بدلے بھی تو ایک ایسے دور میں جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے۔ پہلے تو ہمیں تھوڑا سا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ حامد کرزئی جو، ارگ تک پاکستان دوستی کے سرٹیفکیٹ سمیت پہنچا تھا مگر ان کے ساتھ تعلقات ایسے بگڑے کہ عالمی فورم پر مشرف اور کرزئی نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈاکٹر اشرف غنی بنیادی طور پر سیاستدان نہیں تھا بلکہ اکانومسٹ تھا ۔ اس کے بھی صدارتی محل تک پہنچنے میں ہماری خوشی شامل تھی لیکن بعد میں ان کے ساتھ ایسی بگڑی کہ بن ہی نہیں پائی۔
موجودہ افغان عبوری حکومت کے دور میں اب حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ ہم افغانستان میں براہِ راست کاروائی کی تنبیہ کررہے ہیں۔ درست ہے کہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے حالات انتہائی خراب ہیں اور امن بحال کرنے کے لیے ناپسندیدہ اقدامات اٹھانے کا بھی سوچ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم سے کہاں غلطی ہورہی ہے کہ ہر بار ہماری محنت پر ایسا پانی پھیر جاتاہے کہ حالات بدتر ہو جاتے ہیں؟
گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں ہم نے بڑی شدت کے ساتھ ایک بات نوٹ کی کہ جب بھی پاک افغان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے تو ہم بارڈر کے دروازوں کو تالے لگا دیتے ہیں ۔ یہ قدم اٹھانے سے پہلے ہم ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ شاید افغانستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ کاروبار کرنے میں سب سے زیادہ منافع ہمیں ہوتا ہے ۔ ہم نے اس آپشن کا استعمال اتنی شدّت سے کیا کہ سابقہ افغان حکومتوں نے متبادل راستے ڈھونڈنے کی کوششیں شروع کیں اور فروری 2019 میں چابہار ایران کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ باقاعدہ سامان کی ترسیل شروع ہوئی۔
اب جبکہ چین نے اقوامِ عالم میں پہل کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر افغانستان میں اپنا سفیر بھیجا ہے تو کیا ہندوستان زیادہ دیر تک پیچھے رہے گا؟ اس وقت ہندوستان کے پاس آپشنز بھی ہیں کیونکہ افغان عبوری حکومت نے انڈیا کو اعلانیہ طور پر افغانستان میں کام کرنے کی دعوت دے رکھی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی سے متاثر ہونے کے بجائے فائدہ اٹھانے کا الزام لگانے والے ہندوستان کو اس بات پر یقین کرنے میں دشواری ہو رہی کہ طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان تعلقات واقعی کشیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان خود کو طالبان حکومت سے فاصلے پر رکھ رہا ہے۔ ویسے بھی مودی کا انڈیا تعصب کی انتہا تک پہنچ چکا ہے لیکن اگر قابل توجہ امر یہ ہے کہ اگر موجودہ عبوری افغان حکومت بارے انڈین پالیسی تبدیل ہو گئی تو ہمیں کتنا نقصان ہوگا؟
ان حالات کو تبدیل کرنے اور خطے میں امن استوار کے لیے میرے پاس بھی کسی حل کا خاکہ موجود نہیں ہے لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایسے اقدامات تو نہ اٹھائیں جائیں جو متاثرہ افغان عوام کے لیے مزید تکالیف کا باعث بنیں کیونکہ افغانستان میں عوامی سطح پر نفرت بڑھ رہی ہے۔ ہم تواتر کے ساتھ کہتے ہیں کہ افغانی ہماری معیشت پر بوجھ ہیں لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کیونکہ اس وقت افغانی پاکستان میں ہر وہ کاروبار کررہے ہیں جو پاکستانی نہیں کرپاتے۔ زیادہ تر افغانیوں کے کاروبار جو عموماً ریڑھیوں کی شکل میں ہوتے ہیں، ہمارے شہروں سے باہر ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں صرف غریب طبقہ ہی خریداری کر سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں ایسے مقامات پر نظر پڑتی ہے تو اطمینان ہوتا ہے کہ معاشی طور پر کمزور افراد کو اشیائے ضروریہ سستے داموں ملنے کا کوئی بندوبست تو ہے۔
ایسے بھی افغان ہیں جنہوں نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ افغانستان کی خراب معاشی صورتحال اور جنگوں کی وجہ سے افغانوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ میں بھی رہائش پذیر ہے جو پاکستان میں موجود اپنے لوگوں کو کافی پیسہ بھی بھیجتے ہیں۔ یہ زر مبادلہ بھی بنیادی طور پر پاکستان میں آرہا ہے تو پھر ان افغانوں کے خلاف اتنی سختی کیوں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی کاروائیاں اور کریک ڈاؤن نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ افغانیوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کے شعلے بھی بڑھکا سکتے ہیں۔ بیشک پاکستان دہشت گردی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے مگر ایک عام افغانی پر بھی زمین تنگ ہے۔
میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ پاکستان موجودہ حالات سے نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن پاک-افغان بارڈر بند کرنا اور ملک میں موجود افغانیوں کے خلاف شدت سے کاروائیاں اس ضمن میں معاون ثابت ہونے کے بجائے مزید نقصان کا باعث ہی بنیں گی۔ ہمیں سر جوڑ کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اپنا نقصان اورغیر کا فائدہ کرنے والے آپشنز ہی کیوں ہیں؟