پاکستان میں بننے والے تمام کھانوں میں کوکنگ آئل کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں تری (زیادہ تیل میں) تیار پکوان کو زیادہ لذیذ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر سال 6 ارب ڈالر سے زائد کا کوکنگ آئل ملیشیا اور انڈونیشیا سے خریدتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے تاہم اب بھی یہاں پام آئل کی کاشت کا رجحان نہیں ہے، ماہرین کے مطابق اگر پاکستان کی ساحلی علاقوں میں پام آئل کی کاشت کی جائے تو جو پودا ملیشیا میں 30 کلو کا ہوتا ہے وہ زرخیز زمین ہونے کے باعث پاکستان میں 50 کلو کا ہوگا۔
سالانہ 60 لاکھ ٹن سے زائد کوکنگ آئل کی درآمد
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں پر تمام اقسام کے پھل، سبزیاں، دالیں، چاول ،سرسوں اور کپاس سمیت تمام اقسام کی اجناس کاشت کی جاتی ہیں، تاہم اس کے باوجود پام آئل کی کاشت پر توجہ کبھی نہیں دی گئی، یہی وجہ ہے کہ کوکنگ آئل کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سالانہ 60 لاکھ ٹن سے زائد کوکنگ آئل درآمد کیا جاتا ہے۔
پاکستان پام آئل استعمال کرنے والا پانچواں ملک
پاکستان میں کوکنگ آئل بنانے والی فیکٹریاں پام آئل ہی سے کوکنگ آئل بناتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پام آئل استعمال کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ عالمی منڈی میں پام آئل اور سویابین کی قیمتوں میں اضافے کے باعث گزشتہ سال پاکستان میں کوکنگ آئل کی قیمت 500 روپے فی کلو سے تجاوز کر گئی تھی۔
ٹھٹہ میں پام آئل کے ایک ہزار پودے
ملک بھر میں پام آئل کی کاشت کے لیے حکومت نے کبھی کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔ 1996 میں حکومت نے پائل کے ایک ہزار سے زائد پودے ملیشیا سے منگوا کر سندھ کے علاقے ٹھٹہ میں تجرباتی طور پر لگوائے گئے تھے، تاہم اس کے بعد بھی اس منصوبے پر توجہ نہیں دی گئی۔
2016 میں ان درختوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان درختوں کی پیداوار اچھی ہے تاہم کسی حکومتی ادارے نے اس پر توجہ نہ دی۔ پاکستان میں پام آئل پروسیسنگ کا بھی کوئی خاص نظام موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ زمیندار اسی کاشت نہیں کرتا۔
بھارت میں پام آئل کی کاشت پر کام کا آغاز
ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان نے 1996 میں پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پام آئل کی کاشت کا تجربہ کیا لیکن اس کے بعد اس پر توجہ نہیں دی گئی جبکہ پڑوسی ملک بھارت نے پام آئل کی کاشت پر کام شروع کیا اور آج بھارت کے 8 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر پام آئل کی کاشت ہوتی ہے۔
پام آئل کا 85 فیصد حصہ ملائیشیا اور انڈونیشیا سے حاصل کیا جاتا ہے
ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا میں 2 کروڑ 30 لاکھ ٹن پام آئل کوکنگ آئل کی تیاری میں استعمال کو رہا ہے۔ اس پام آئل کا 85 فیصد حصہ ملائیشیا اور انڈونیشیا سے حاصل کیا جاتا ہے۔
ماہرین کی مطابق پاکستان کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ یہاں ملائیشیا اور انڈونیشیا سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے 5 لاکھ ایکڑ رقبے پر پام آئل کے درخت لگ سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی پام آئل کی 65 لاکھ ٹن کی طلب بھی پوری کو سکتی ہے جبکہ کئی لاکھ ٹن برآمد بھی کیا جاسکتا ہے۔
پام آئل درخت کی خصوصیت
پام آئل کا درخت کم رقبے پر سب سے زیادہ تیل دینے والا درخت ہے، ایک ٹن تیل حاصل کرنے کے لیے سویا بین کو 44 کنال پر اگایا جاتا ہے۔ سورج مکھی کو 30 کنال جبکہ ایک ٹن پام آئل کو صرف 5 کنال پر اُگایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
100 سال تک پھل دینے والا درخت
پام آئل کا درخت ایسی جگہ پر اُگایا جا سکتا ہے جہاں زمین کو پانی زیادہ مقدار میں دستیاب ہو، جبکہ اس علاقے کا درجہ حرارت 25 سے 35 ڈگری کے درمیان رہتا ہو۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں صوبہ سندھ کے علاقے کراچی، حیدرآباد، ٹھٹہ، میرپور خاص، سانگھڑ اور بلوچستان کے علاقے گوادر، پسنی، سومیانی اور حب میں پام آئل کی اچھی کاشت ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان زمین اور موسم کے اعتبار سے پاکستان میں پام آئل درخت کی ٹینرا قسم کو اگر کاشت کیا جائے تو اس کے اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ پام آئل کا درخت لگانے کے بعد 3سال کے بعد پھل دینا شروع کرتا ہے اور 100 سال تک پھل دیتا ہے۔