پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ جانتا ہیں کہ پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں۔
کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں پرانی سیاست کی سوچ کو چھوڑنا ہوگا، پرانی طرز سیاست والے سیاستدانوں کے حوالے یہ ملک نہیں کرنا چاہیے، میرا یہ اعتراض بالکل نہیں کہ یہ لوگ بزرگ ہوچکے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی کوشش ہوگی کہ بلوچستان کے عوام کی خدمت کریں، میں بلوچستان کو جانتا ہوں، جس دکھ کا شکار یہاں کے عوام ہیں میں بھی اس دکھ سے گزر چکا ہوں، مجھے ان کے دکھ اور تکلیف کا احساس ہے۔
انہوں نے کہا بے نظیر بھٹو جو ملک اور امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں انہیں شہید کیا گیا، شاہنواز بھٹو کو زہر پلا کر شہید کیا گیا، میرے ماموں میر مرتضیٰ بھٹو کو شہید کیا گیا اور الزام شہید بے نظیر اور ان کے خاندان پر لگایا اور یہ الزام ان کی حکومت کے خاتمے کی سازش کا حصہ تھا۔
انہوں نے کہا میں آج بھی جب دیکھتا ہوں کہ بلوچستان کی مائیں بچوں کے شہید ہونے، ان کی ٹارگٹ کلنگ اور لاپتہ ہونے پر دکھی ہے، کیا یہ ہماری قسمت میں لکھا ہے، کیا پاکستان اور خصوصاً بلوچستان کے عوام کان خون سستا ہے، 70 سال سے جو نظام چلتا آرہا ہے کیا اس نظام نے ملک کے شہریوں کو آج تک انصاف دلوایا ہے۔
ہمیں بتایا جا رہا ہے جو 3 بار وزیراعظم بنا وہی چوتھی بار بن کر ملک کو مشکلات سے نکالے گا
انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ جو 3 بار اس ملک کا وزیراعظم بنا وہی چوتھی بار بنے گا اور وہ ملک کو ان مشکلات سے نکالے گا۔ دوسری طرف بتایا جا رہا ہے کہ ایک دوسرا شخص جو خود چند سال پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے اور اپنے دور میں جس نے کہا تھا کہ بلوچستان میں احتجاج کرنے والے ہزارہ برادری کے لوگ بلیک میلرز تھے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جس نے وزیراعظم ہوتے ہوئے لاپتہ لوگوں کے معاملے کو غیراہم سمجھا، وہ 70 سال کا شخص نوجوانوں کا لیڈر کہلاتا تھا، کیا یہی لوگ پاکستان، بلوچستان اور ملک کے لوگوں کے آپشنز ہیں، اور میرا یہ اعتراض تو بالکل نہیں کہ یہ بزرگ بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ بزرگ ہوتے ہوئے بھی اس ملک کے لیے نئی طرز سیاست اختیار کرسکتے ہیں، اور آپ نوجوان ہوتے ہوئے بھی وہی پرانی طرز سیاست سے دلچسپی رکھ سکتے ہیں۔
ملک کی باگ دوڑ 2 افراد کے ہاتھوں میں نہ دی جائے
انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ پاکستان کے الیکشن کیسے ہوتے ہیں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جب پاکستان کے عوام جب جاگ جاتے ہیں اور فیصلہ لے لیتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا فیصلہ نہیں بدل سکتی، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان اور بلوچستان کے عوام کا فیصلہ لے لیا ہے، مگر میری پاکستان اور بلوچستان کے لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ 8 فروری کو اپنا ووٹ کا اختیار استعمال کرکے ان لوگوں کو فیصلہ کرنے سے روک دیں۔
مزید پڑھیں
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس ملک کی سمت ان 2 افراد کے حوالے نہ کی جائے جنہوں نے پرانی ، نفرت اور تقسیم کی سیاست کرکے ملک میں مسائل پیدا کیے، عوام ان لوگوں کو پھر سے حکومت کرنے کا موقع نہ دیں، وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان اور اس کے مستقبل کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جماعتوں کا نہیں پتہ لیکن پی پی پی نے ہمیشہ عوام پر بھروسہ کیا ہے اور امید ہے کہ لوگ پی پی پی کی بات سنیں گے اور اس کے ساتھ مل کر ایک نئی تاریخ رقم کریں گے، میں اس ملک کا نوجوان وزیر خارجہ رہ چکا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ اس ملک میں کتنی صلاحیت ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ہم پاکستان کو ماڈرن ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی بلوچستان کے عوام کو وسائل میں حصہ دار بنائے گی
بلاول نے کہا کہ میں وہ پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جس کی عوام دنیا جہاں چاہے جا سکے، کام کر سکے اور فخر سے بتا سکے کہ میں پاکستان کا شہری ہوں، اگر ہمیں یہ کرنا ہے تو ہمیں پرانی طرز سیاست اور روایتی سوچ کو چھوڑنا پڑے گا، اپنے عوام کے مفاد کے بارے میں سوچنا پڑے گا، انہیں معاشرے، معیشت اور سیاست میں حصہ دار بنانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے پاس جتنے وسائل ہیں اتنے پورے پاکستان میں نہیں ہیں، یہاں سی پیک کا مںصوبہ ہے جس کی بنیاد صدر زرداری نے رکھی جس سے یہاں دہشت گردی اور غربت کا خاتمہ ہونا تھا مگر اس منصوبے پر ان کی سوچ کے مطابق عملدرآمد نہیں ہورہا۔ انہوں نے کہا کیا آج بلوچستان اور گوادر کے عوام خود اپنے صوبے کے وسائل اور سی پیک میں حصہ دار سمجھتے ہیں۔
بلاول کا کہنا تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایسا کام کیا ہے جس میں سب سے پہلے فائدہ مقامی لوگوں کو ہوا، حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے عوام کو حصہ دار بنایا، کیا بلوچستان کے عوام اگر تھر کول منصوبے کا اپنے صوبے کے مںصوبوں سے موازنہ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا پیپلز انتخابات جیت کر سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی عوام کو ان کے وسائل اور منصوبوں میں حصہ دار بنائے گی اور انہیں ان کا حق دلوائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر زرداری نے پہلی دفعہ این ایف سی ایوارڈ منظور کیا تو وہ بلوچستان کی جیت تھی، وفاق کا نمائندہ ہوتے ہوئے بلوچستان سے معافی مانگی وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ وفاق کی طرف سے معافی مانگی اور جب صدر زردری نے آغاز حقوق بلوچستان کا آغاز کیا تو وہ بھی بلوچستان کی جیت تھی۔
انہوں نے کہ پیپلز پارٹی ملک سے نفرت اور تقسیم کی سیاست کو دفن کر کے ایک نئی سیاست کا آغاز کررہی ہے جس میں سب مل کر آگے بڑھیں گے، اس ملک کی خدمت کریں گے۔