امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری اور پائیدار جنگ بندی کی قرارداد گزشتہ روز جمع کرائی، جس پر آج ہی ووٹنگ کا عمل متوقع ہے۔ اس قرارداد کو روس سمیت دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے اور یہی توقع کی جارہی ہے کہ سلامتی کونسل میں بڑے ووٹوں کے ساتھ قرارداد منظور کرلی جائے گی۔
امریکا کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے معاہدے کو یقینی بنائے، اور جمعہ یعنی آج ہی قرارداد پر ووٹنگ کرائے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ جنگ بندی شہریوں کے تحفظ اور 20 لاکھ سے زیادہ بھوکے فلسطینیوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو قابل بنانے کے لیے ضروری ہے۔
مزید پڑھیں
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق قرارداد میں حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کی رہائی کی ڈیل بھی شامل ہے، قرارداد امریکی وزیرخارجہ کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے بعد پیش کی جارہی ہے، امریکی قرارداد کے مطابق جنگ بندی قیدیوں کی رہائی سے مشروط ہوگی۔
اس قرارداد میں حماس سے یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ رفح پر اسرائیلی زمینی حملہ غلطی ہوگی۔ رفح میں زمینی کارروائی ایک غلطی ہوگی اور ہم اس کی حمایت نہیں کرسکتے وہاں بے گھر ہونے والوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور حملہ ایک انسانی تباہی کا باعث بنے گا۔
’حماس جنگ شروع ہونے کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں اپنے چھٹے فوری مشن پر ہیں، جس میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ جنگ کے بعد کے حالات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے‘۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم یرغمالیوں کے معاہدے پر ہر ایک دن کام کر رہے ہیں لیکن حقیقی چیلنجز درپیش ہیں جس کی وجہ سے ہم اس پر کوئی ٹائم لائن نہیں دے سکتے۔
واضح رہے اس اسے قبل 5 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں امریکا لفظ جنگ بندی کا مخالف تھا اور ایسے اقدامات کو ویٹو کر دیا گیا تھا جس میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
سلامتی کونسل میں منظور ہونے کے لیے قرارداد کے حق میں کم از کم 9 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور امریکا، فرانس، برطانیہ، روس یا چین کی جانب سے کوئی ویٹو نہیں ہونا چاہیے۔
تاہم حماس کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو صرف اس معاہدے کے حصے کے طور پر رہا کرے گا جس سے جنگ کا خاتمہ ہوگا، جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک عارضی توقف پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔